اترپردیش کی فتح کے بعد اب ملائم سنگھ کی نظریں دہلی پر لگیں



Published On 27 March 2012
انل نریندر
اترپردیش کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد سماجوادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو کی نظر اب دہلی کے تخت پر لگ گئی ہے۔ اب ملائم نے وسط مدتی چناؤ کبھی بھی ممکن کی بات کہہ ڈالی۔ اس سے پہلے ترنمول کانگریس چیف ممتا بنرجی نے بھی وسط مدتی چناؤ کے لئے تیار رہنے کی بات کہی تھی۔ ممتا۔ ملائم کے سر میں سر ملاتے ہوئے بھاجپا کی سشما سوراج نے بھی دیش میں وسط مدتی چناؤ کا امکان ظاہر کیا ہے۔ دیواس (مدھیہ پردیش) ضلع میں ویجی لینس و نگرانی کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت کرنے آئی سشما نے میڈیا سے کہا کہ دیش کی سیاست ہر دن بدل رہی ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وسط مدتی چناؤ کا امکان ہے۔ سشما نے کہا کہ مرکز کے لئے 272 کا جادوئی نمبر نہیں رہ گیا ہے اور وہ محض 227 ممبران پر ٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہامرکز میں سرکار اقلیت میں آنے کے امکان کو دیکھتے ہوئے بھاجپا وسط مدتی چناؤ کیلئے پوری تیار ہے۔ ملائم کا نشانہ وزیر اعظم بننے کا ہے۔ انہوں نے جمعہ کو سماجوادی نظریئے کے بانی ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی 102 ویں جینتی پر لکھنؤ میں اپنے ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب لوک سبھا میں وسط مدتی چناؤ کیلئے کمر کس لی ہے کیونکہ لوک سبھا چناؤ کبھی بھی ہوسکتے ہیں اس سال یا پھر اگلے سال ، اس لئے سارے ورکر پوری طاقت ابھی سے لگادیں۔ یوپی میں شاندار کامیابی کے بعد اب ریاستی ورکر سبھی 80 لوک سبھا سیٹیں جیتنے کیلئے نشانہ مقرر کرلیں۔ دراصل شری ملائم سنگھ یادو نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے وقت جب سماجوادی پارٹی کا موقف کانگریس کے تئیں نرم ہوتا نظر آرہا تھا اور ممتا بنرجی کی بھرپائی کے لئے سپا کو مرکز میں جگہ ملنے کی قیاس آرائیاں تیز ہورہی تھیں تبھی ملائم نے وسط مدتی چناؤ کی بات کہہ کر کانگریس کی ہوا نکال دی۔ ایک طرف انہوں نے کانگریس کے تئیں نرم ہونے کا اپنے نظریئے کی درپردہ طور سے تردید کردی ہے۔ وہیں دوسری طرف اپنے ورکروں کو کانگریس کے خلاف سرگرم ہونے کا پیغام دے دیا۔ یہ ہی نہیں انہوں نے اپنے بیٹے اور وزیر اعلی اکھلیش سنگھ کو یہ بتادیا ہے کہ ان کی سرکار کے کام کاج پر ہی لوک سبھا چناؤ لڑے جائیں گی۔ بھلے ہی وزیر اعلی کے عہد کی میعاد پانچ سال کی ہو لیکن ان کی کسوٹی پر ہونے والے کام کاج کی اگنی پریکشا ایک سال کے اندر ہی ہوجائے گی۔ ملائم سنگھ کو وسط مدتی چناؤ اس لئے بھی سوٹ کرتے ہیں کیونکہ ابھی انہوں نے نہ صرف اپنے بھائی (مسلم یادو) تجزیئے کو ٹھیک سے باندھ رکھا ہے بلکہ سماج وادی حکمت عملی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سبھی ذاتوں کے ووٹ بینک ہتھیانے کا کرشمہ دکھایا ہے ۔ جس طرح اکھلیش نے اپنی پہلی ہی میٹنگ میں لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ اور بے روزگاری بھتہ جیسے وعدے چناؤ منشور میں خاص طور پرشامل تھے، کو ہری جھنڈی دے دی ہے۔ اس سے یہ قیاس آرائیاں بھی مسترد ہوگئیں کہ آخر سپا کی ان اہم اسکیموں کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ وسط مدتی چناؤ کی صورت میں ملائم سنگھ کو یہ فائدہ ہونے کی امید ہونی چاہئے کہ سال بھر تک لوگ کم سے کم مایاوتی راج کی یادیں تازہ ہی رکھیں گے۔ مایاوتی کے تئیں ناراضگی کا فائدہ بھی سپا کو لوک سبھا میں ضرور ملے گا۔
اترپردیش کے نظریئے سے دیکھا جائے تو وسط مدتی چناؤ بسپا چیف کے لئے بھی کم مفید نہیں کہا جاسکتا۔ چناؤ میں ہار کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بہن جی نے امید ظاہر کی تھی کہ سپا کے لوگوں کو بد امنی انہیں پھر سے اگلے چناؤ جیتنے کا موقعہ دے گی۔ حالانکہ مایاوتی کے لئے سپا کے عہد میں جتنے دنوں بعد چناؤ ہوں وہ مفید ہی رہیں گے کیونکہ انہوں نے امید پال رکھی ہے کہ سپا کی غلطیوں سے ان کی پارٹی کو فائدہ ملے گا۔ ویسے ان کی یہ امید بے معنی نہیں ہے کیونکہ پہلی بار اگر ملائم سنگھ یادو بسپا کے ساتھ مل کر چناؤ نہیں لڑتے تو اترپردیش میں پاؤں پھیلانے کا موقعہ بسپا کو اتنی جلدی نہیں ملتا۔ یہ ہی نہیں گیسٹ ہاؤس کانڈ نہیں ہوتا تو بھی بھاجپا مایاوتی کو وزیر اعلی نہ بنانے کی غلطی کرتی۔ ملائم سرکار کے تیسرے عہد میں سپا ورکروں کی غنڈہ گردی نے ہی مایاوتی کو 2007ء میں مکمل اکثریت سے سرکار بنانے کا موقعہ دیا۔ ایسے میں مایاوتی کی خوش فہمی واجب ہے لیکن جس طرح سپا سرکار چل رہی ہے اس کے پیش نظر ضرور اسے بے معنی کہا جائے گا۔ بسپا کے بانی کانشی رام اپنی تقریروں میں صاف طور پر کہا کرتے تھے کہ کمزور سرکار اور بار بار چناؤ ان کی پارٹی کے لئے فائدے مند ہیں۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Delhi, MCD, Samajwadi Party, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟