امریکہ کا ریزولیوشن:بلوچستان ایک آزاد ملک بنے



Published On 23rd February 2012
انل نریندر

امریکہ نے اب نیا واویلا کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے شورش زدہ جنوبی بلوچستان صوبے میں حق ارادیت کے اختیار کایہ ایک نیا تنازعہ امریکہ کے تین ممبران پارلیمنٹ نے ایوان نمائندگان میں ایک ریزولیوشن پیش کرکے کھڑا کردیا ہے۔ ری پبلکن ایم پی ڈین روہیرا بیکر اور دیگر ممبران نے ریزولیوشن پیش کرتے ہوئے کہا فی الحال پاکستان، ایران اور افغانستان کے درمیان بٹے بلوچ شہریوں کو حقِ خود ارادیت اور اپنی سرداری ملک کا اختیار ہونا چاہئے۔ انہیں خود کا اپنا معیار طے کرنے کا موقعہ ملنا چاہئے۔ خارجی امور کی ایوان کی ایک سب کمیٹی کے چیئرمین روہیرا بیکر نے پچھلے ہفتے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے میں کانگریس میں ایک مباحثے کا انعقاد کیا تھا۔ممبر پارلیمنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ جو سیاسی اور نسلی امتیاز سہہ رہے ہیں وہ بہت سنگین ہے۔ حالات اس لئے بھی اور زیادہ بگڑ گئے ہیں کیونکہ امریکہ اسلام آباد میں ان کو کچلنے والوں کو اقتصادی مدد دے رہا ہے، ہتھیار بیچ رہا ہے۔ بلوچستان فی الحال تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن پاکستان بننے کے ساتھ ہی اس کو آزاد دیش بنانے کی مانگ شروع ہوگئی تھی۔ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقع ایران کی سرحد ہے جس سے ملحق یہ علاقہ سب سے شورش زدہ مانا جارہا ہے۔ مغربی حصہ افغانستان سے لگا ہوا ہے اور باقی پاکستان سے۔ بلوچ کی آزادی کی جنگ میں امریکہ اور نیٹو کی حمایت حاصل ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کے 2013ء تک بلوچستان ایک آزاد ملک بن جائے۔
ہماری رائے میں بیشک بلوچستان ایک شورشزدہ علاقہ ہے اور وہاں پاکستان کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ تازہ مثال عبدالکبیر نامی ایک شخص کا دعوی ہے کہ اس کا بیٹا 2009ء میں غائب ہوگیا تھا اس کی لاش نومبر 2011ء میں ملی ہے۔ عبدالکبیربلوچ کا 29 سالہ بیٹا عبدالجلیل ریکی 13 فروری2009ء کو لاپتہ ہوگیا تھا۔ ان کے مطابق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اس کا اغوا کیا تھا۔گذرے سال 22 نومبر کو ایرانی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے مند میں عبدالجلیل ریکی کی گلی سڑی لاش ملی تھی۔ عبدالکبیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بیٹے کو تین گولیاں سینے میں لگی تھیں اور اس کی پیٹ کا کوئی حصہ خالی نہیں تھا جہاں لوہے کو گرم کرکے اور سگریٹ سے اس کی پیٹ کو داغا نہ گیا ہو۔ عبدالکبیر بلوچ کا قصور اتنا تھا کہ وہ پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے خلاف احتجاج کرتے تھے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں 14 ہزار کے قریب لوگ ابھی بھی غائب ہیں جن میں 200 سے زائد خواتین ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت خراب ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ اس میں مداخلت کرے اور اسے دیش سے الگ کرنے کی سازش چھوڑ دے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ دراصل امریکہ کی اصل نیت ایران میں خفیہ نظر رکھنے کی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے وہ بلوچستان میں اپنا اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بلوچ کی عوام حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کے لئے ریزولیوشن پیش کرکے دباؤ بنانا چاہتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ایک افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امریکہ ہماری زمین کا استعمال کرنا چاہتا ہے جس کی ہم قطعی اجازت نہیں دے سکتے۔ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے دو افسران اور سیاسی حلقوں کے زیادہ تر افسران نے تصدیق کی ہے کہ امریکی سفارتکار اور فوجی لیڈروں نے بلوچستان میں ایرانی سرحد کے پاس اپنے ایجنٹوں کو اپنی سرگرمیاں چلانے کی اجازت مانگی تھی۔ یہ انکشاف پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں پر بلوچستان میں اغوا اور زیادتیوں کے بارے میں امریکی ایوان نمائندگان میں ریزولیوشن پیش ہونے کے فوراً بعد ہواہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی یعنی نچلے ایوان نے بھی بلوچستان سے متعلق امریکی ریزولیوشن کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کی کٹر پنتھی تنظیموں کے سب سے بڑے گروپ نے پیر کو ایک زبردست مظاہرہ کیا۔ اس میں لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید بھی شامل ہیں جس نے پابندی کے باوجود فیڈرل راجدھانی اسلام آباد میں تقریر کی۔ امریکی ریزولیوشن کی پاکستانی حکومت اور فوج اور عوام سبھی مل کر مخالفت کررہے ہیں۔ سبھی کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملوں میں براہ راست مداخلت ہے اور اس کی اصل وجہ اور ہی ہے۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Rahul Gandhi, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟