ایسی حالت میں تو ہم لڑ چکے آتنک واد کی چنوتی سے



Published On 22nd February 2012
انل نریندر

یہ دکھ کی بات ہے کہ دہشت گردی سے موثر ڈھنگ سے لڑنے کے لئے تیار کئے جارہے نیشنل کاؤنٹر ٹیریرزم سینٹر (این سی ٹی سی) پر سیاسی گرہن لگ گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سلامتی کی کیبنٹ کمیٹی (سی سی اے) نے اس سال11 جنوری کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے طاقتور قومی انسداد دہشت گردی سینٹر کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایجنسی یکم مارچ2012ء کو وجود میں آجائے گی۔ یہ دہشت گردی کے خطروں کا پتہ لگانے کے علاوہ تلاشی آپریشن شبے کی بنیادپر لوگوں کو گرفتار کرسکے گی۔ اس کو یہ اختیارات غیر قانونی سرگرمی انسداد قانون کے تحت حاصل ہوں گے۔ دہشت گردی کی سازش کا پتہ لگانا، دہشت گردوں اور ان کے ساتھیوں کا پتہ لگانا اس کا مقصد ہے۔ یہ سی بی آئی ، این آئی اے نیٹ گریٹ سمیت ساتوں سینٹرل مسلح فورسز سے اطلاعات حاصل کرسکے گی۔ اس کا سربراہ ڈائریکٹر کہہ لائے گا جو انٹیلی جنس بیورو ایڈیشنل ڈائریکٹر کے مساوی عہدے کا ہوگا۔ این سی ٹی سی اطلاع اکٹھا کرنے کے لئے دوسری ایجنسی پر منحصر کرے گا۔ آدھے درجن سے زیادہ غیر کانگریسی وزرائے اعلی نے اس مرکز کے قیام پر اعتراض ظاہر کیا ہے اور اندیشہ جتایا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کھڑے کئے جارہے اس یونیفائڈ کمان کا کہیں قتل نہ ہوجائے۔ اس مجوزہ دہشت گردی انسداد مرکز کو ریاستوں کے معاملوں میں مداخلت اور آئین کی مریادا کی خلاف ورزی بتایا جارہا ہے اس پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ این سی ٹی سی نام سے بحث میں آئے اس قومی آتنک واد انسداد مرکز کے خلاف ٹھیک اس وقت آواز بلند ہورہی ہے جب اس کے باقاعدہ کام کرنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے۔ یکم مارچ سے سرگرم ہونے جارہے این سی ٹی سی کے خلاف ریاستی حکومتوں کی سرگرمی یکایک بڑھ گئی ہے۔ چند دن پہلے تک صرف ممتا بنرجی، نوین پٹنائک کو ہی یہ مرکز راس نہیں آرہا تھا لیکن اب سارے بھاجپا حکمراں وزرائے اعلی اور تملناڈو کی وزیر اعلی کو بھی یہ لگنے لگا ہے کہ ریاستوں کے اختیارات پر قبضہ ہونے جارہا ہے۔ ہماری رائے میں اس مرکز کا احتجاج کرنے والوں کی دلیلوں میں بھی دم ہے۔ کچھ معنوں میں تو یہ پوٹا سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ 
بغیر ریاستوں کو اطلاع دئے اس میں کسی کو بھی گرفتار کرنے کی سہولت ہے۔ اس سے ریاستوں کا خوفزدہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اس یوپی اے سرکار اور خاص کر وزیر داخلہ پی چدمبرم کی ساکھ اتنی گر چکی ہے کہ ان پر اب کوئی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ اگر یہ کرنا ہی تھا تو پوٹا کیوں ہٹایا؟ 26/11 حملوں کے بعد دیش میں ایک ماحول ایسا بنا تھا کہ اگر اسی وقت اس مرکز کو قائم کرلیا جاتا تو شاید اتنا احتجاج نہ ہوتا۔ ادھر یوپی اے سرکار سوتی رہی اور اتنے سال گزر گئے اب آکر اسے ہوش آیا ہے۔ اس احتجاج کی اصلیت میں ریاستوں کی یہ مشکل ہے کہ مرکزی حکومت اس قانون کے تحت اپنا سیاسی ایجنڈا ان پر ٹھونپ سکتی ہے۔ یہ دہشت گردی انسداد نظام مرکز کے خفیہ محکمے انٹیلی جنس بیورو کے تحت چلے گا۔ ان ریاستوں کو اندیشہ ہے کہ سی بی آئی کی طرح اسے بھی کہیں مرکز کی اقتدار پر قابض پارٹی کے مفاد کا ذریعہ نہ بنا دیا جائے۔ ایسی حالت میں تو ہم لڑ چکے آتنک واد سے۔
Anil Narendra, CBI, Daily Pratap, Mamta Banerjee, NCTC, P. Chidambaram, Terrorist, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟