عرش سے فرش تک کنگ فشر کا پانچ سالہ سفر

ساتواں آسمان چھونے کے انداز میں دھماکیدار آغاز کرنے والی کنگ فشر ایئر لائنس محض پانچ چھ سال میں ہی جس طرح دیوالیہ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے، یہ داستاں جہاز رانی صنعت ہی نہیں بلکہ پوری کارپوریٹ دنیا اور دیش میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ سال 2005ء میں کنگ فشر کی لاؤنچنگ کے وقت اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر امید کی جارہی تھی کہ آنے والے وقت میں یہ کمپنی گھریلو پرواز صنعت کی سمت کی بدل کر رکھ دے گی۔ اپنے الگ طریق�ۂ کار اور اپنی حدود کے دم پر کنگ فشر نے اس وقت گھریلو جہاز رانی صنعت کے آسمان پر چھائی انڈین ایئرلائنس اور جیٹ ایئر ویز کو سخت ٹکر دے کر بازار میں اپنا الگ مقام بنالیا تھا۔ مسافروں کے کرایے کی ٹکڑ لیتے ہوئے اپنی رعایتی پیشکش پر کنگ فشر کافی کم وقت میں بہت سے لوگوں کی من پسند ایئرلائنس بن گئی تھی۔ایسی دمدار شروعات کرنے کے باوجود آج کنگ فشر ایئرلائنس کنگالی کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ اس کے پیچھے شراب بنانے کے سب سے بڑے صنعت کار وجے مالیا کا ہاتھ ہے۔ دونوں کامیابی میں بھی اور کنگالی کے دور میں بھی شان و شوکت سے زندگی بسر کرنے والے وجے مالیہ کے بہت سے کاروبار ہیں۔ ایک زمانے میں وہ سرگرم سیاست میں آکر اس سیکٹر کے بھی کنگ بننا چاہتے تھے لیکن راجیہ سبھا کے ممبر ہونے کے علاوہ انہیں اس سیکٹر میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ 18 دسمبر1955 ء میں پیدا ہوئے وجے مالیہ کی ساکھ ایک گلیمر پسند پلے بوائے کی بنی ہوئی ہے۔ ویسے کئی کھیلوں کے پرموشن میں ان کا خاصہ تعاون رہا ہے۔ 2007ء میں انہوں نے فارمولہ ون اسپائی کار ٹیم نیدر لینڈ سے 88 ملین یورو کی خریدی تھی، بعد میں اس کا نام بدل کر فورس انڈیا فارمولہ ون رکھا گیا۔ 2004ء میں مالیہ نے ٹیپو سلطان کی تلوار لندن سے ایک لاکھ 75 ہزار پاؤنڈ میں نیلامی سے خرید لی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا تھا دیش کی عزت کے لئے وہ ٹیپو سلطان کی تلوار دیش میں لائے ہیں۔ اسی طرح مارچ2009ء میں مالیہ نے نیویارک میں ہوئی ایک نیلامی میں مہاتما گاندھی کے نجی استعمال کی کچھ چیزوں کے لئے 3 ملین ڈالر کی بولی لگا دی تھی۔ مہنگی گھڑیاں ، مہنگی کاروں کے خاص شوقین مالیہ ایسے شخص ہیں جو صنعت سے زیادہ اپنی رنگین مجاز زندگی جینے کے لئے ہمیشہ بحث کا موضوع بنے رہتے ہیں۔ وہ فیشن ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ،گڈ ٹائمس کے بھی مالک ہیں۔ ان کا سالانہ کلینڈر جس میں ملک و بیرون ملک کی خوبصورت اور نیم عریاں ماڈلوں کو دکھایا جاتا ہے ،کافی سرخیوں میں رہتا ہے۔ آج کنگ فشر کی جو بھی حالت ہوئی ہے اس سے مسلسل خسارے میں ڈوب رہے ہندوستانی جہاز رانی سیکٹر کے بحران کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس نجی کمپنی نے گذشتہ چار پانچ دنوں میں اپنی درجنوں پروازیں منسوخ کردی ہیں اور کنگالی کی طرف بڑھ رہی یہ کمپنی اپنے ملازمین کو تنخواہ تک نہیں دے پارہی ہے۔
گذشتہ کچھ مہینوں کے دوران اس کے آدھے سے زیادہ پائلٹ نوکری چھوڑکر جا چکے ہیں۔ کنگ فشرکی جو حالت ہے اس کے لئے وہ خود تو ذمہ دار ہے ہی مگر ہماری جہاز رانی پالیسی بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ ناسور کتنا پرانا ہے یہ تو اس سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ ڈی جی سی اے آج بھی 1937ء کے قاعدوں سے جہاز رانی کمپنیوں کو چلا رہی ہے۔ کہیں کچھ تو گڑ بڑ ضرور ہے اور پھر خسارے میں صرف کنگ فشر ہی نہیں ہے سرکاری جہاز کمپنی ایئر انڈیا تو سفید ہاتھی ثابت ہورہی ہے۔ اب اگر جہاز رانی سیکٹر کو بحران سے جلدی نہیں نکالا گیا تواس میں مزید گراوٹ طے ہے ۔ اس کا اثر درپردہ طور سے صنعتی اور اقتصادی سرگرمیوں پر بھی پڑے گا جن کا اکثر ہم دم بھرتے ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Kingfisher, Vijay Mallaya, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!