رحم کی اپیلوں کے نپٹارے میں اتنی تاخیر کیوں؟

موت کی سزا کا سامنا کررہے قصورواروں کی رحم کی عرضیوں پر فیصلہ کرنے میں مرکز اور ریاستی حکومت کی جانب سے ہورہی تاخیر پر سپریم کورٹ سخت ہوگئی ہے۔جسٹس جی ۔ایس سنگھوی اور جسٹس ایس۔جے مکھ اپادھیائے کی ایک ڈویژن بنچ نے کہا کہ سبھی ریاستوں کے داخلہ سکریٹری اپنی اپنی ریاستوں کی سبھی رحم کی عرضیوں کے معاملے میں مرکز کو تین دن کے اندر رپورٹ بھیجیں جس کے بعد مرکز اسے اس کے سامنے پیش کرے گا۔ عدالت ہذا نے یہ بھی صاف کردیا کہ اگر ریاستی حکومت کی جانب سے ریکارڈ نہیں بھیجے جاتے تو جو کچھ بھی ہوگا اس کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔بنچ نے یہ بھی کہا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ رحم کی عرضیاں 11 سال بعد نپٹائی جاتی ہیں جو بہت طویل عرصہ ہے۔ بنچ نے مرکزی حکومت کی اس دلیل کو سرے سے مسترد کردیا کہ قصوروار قیدیوں کی جانب سے بار بار عرضیاں داخل کرنے کے چلتے فیصلے میں تاخیر ہوئی ہے۔ حالانکہ بنچ نے کہا دوبارہ عرضی دائر کرنے پر کوئی روک نہیں ہے۔ عدالت پنجاب کے آتنک وادی دویندر پال سنگھ کھلر کی جانب سے دائر ایک عرضی پر سماعت کررہی تھی۔ تہاڑ جیل کی ویب سائٹ پر31 دسمبر2011ء تک کے اعدادو شمار کے مطابق جیل میں فی الحال 24 سزا یافتہ قیدی ہیں جنہیں پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ ان میں23 مرد ، ایک خاتون ہے۔ ان میں خاص ہیں تندور کانڈ، لاجپت نگر بم دھماکہ، پارلیمنٹ پر حملہ، رائے سینا بلاسٹ، لال قلعہ پر حملہ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت28 مجرموں نے صدر کے پاس معافی کی اپیل کررکھی ہے۔
صدر کے پاس 19 معاملوں میں رحم کی عرضیاں زیر التوا ہیں انہیں سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے جس کے بعد صدر کے پاس آئین کی دفعہ 72 کے تحت ان مجرموں نے رحم کی عرضی داخل کررکھی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ یوپی کے معاملے ہیں۔ اترپردیش کے چھ معاملے زیر التوا ہیں جبکہ کرناٹک کے چارمعاملوں میں فیصلہ آنا ہے۔ ایک تو ایسا معاملہ ہے جس میں رحم کی عرضی 1999ء سے زیر التوا ہے۔ ہریانہ سے متعلق اس معاملے میں دھرم پال نامی مجرم پر پانچ لوگوں کے قتل کا مقدمہ ثابت ہوچکا ہے۔ دھرمپال جب ریپ کیس میں ضمانت پر تھا جب اس نے پانچ لوگوں کو قتل کردیا تھا۔ تاملناڈو کی عدالت میں بم دھماکہ کر ایک شخص کو مارنے کے معاملے میں پھانسی کی سزا پائے شیخ میرن، سیلوم رادھا کرشن کا مقدمہ 2000ء سے زیر التوا ہے۔ التوا کے معاملوں میں سرخیوں میں چھایا رہا سونیا اور انجیو کا بھی معاملہ شامل ہے۔ سونیا نے اپنے سوتیلے بھائی اور اس کے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ مرنے والوں میں 45 دن ، ڈھائی سال اور چار سال کے بچے بھی شامل تھے۔ اتنا ہی نہیں سونیا نے اپنے ماں ، باپ، بہن کو بھی مار دیا تھا۔ بھارت کے آئین کی دفعہ72 میں دی گئی قانونی سہولت کے تحت دیش کے صدر کو کسی بھی قصوروار کو سپریم کورٹ کے ذریعے دی گئی موت کی سزا کو معاف کرنے یا اس میں تبدیلی کرنے کا مخصوص اختیار ہے۔ دفعہ161 کے تحت ایسا ہی اختیار کسی بھی ریاست کے گورنر کو بھی ملا ہوا ہے۔ سیاسی اسباب سے رحم کی عرضیوں کے نپٹارے کی بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن عام مجرم سونیا وغیرہ کی عرضی کے نپٹارے میں اتنا وقت لگا جو سمجھ سے باہر ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Mercy Petitione, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟