ٹیم انڈیا میں دراڑیں

آسٹریلیا کے دورہ پر گئی ٹیم انڈیا نہ صرف ہار رہی ہے بلکہ بکھر بھی رہی ہے۔ بیشک بی سی سی آئی اور ٹیم کے ترجمان یہ کہیں کہ ٹیم انڈیا کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ٹیم میں کھلاڑیوں کی آپسی رسہ کشی منظر عام پر آگئی ہے۔ مہندر سنگھ دھونی اور ویریندر سہواگ کے درمیان اختلافات بڑھتے جارہے ہیں جس سے ٹیم کی پرفارمنس پر اثر پڑ رہا ہے۔ ٹیم نے جیتنے کے بجائے ہارنے میں جستجو بنا رکھی ہے۔مشکل سے ایک میچ جیتتے ہیں اور پھر ہار کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ منگل کے روز سری لنکا کے خلاف میچ XIکو لیکر دونوں کھلاڑیوں میں اختلافات تھے انگریزی نیوز چینل ٹائمس ناؤ کے مطابق دونوں کھلاڑیوں نے الگ الگ ٹیم طے کی تھی لیکن آخر کار ویرو کی فہرست والے کھلاڑی ہی میدان پر اترے۔ قابل غور ہے کہ ٹیم انڈیا میں آپسی اختلافات کی خبریں پچھلے کچھ دنوں سے آرہی ہیں۔ چینل کے مطابق دھونی کی XI میں روہت شرما کا نام تھا وہ روہت کو سری لنکا کے خلاف اتارنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف سہواگ تینوں سینئرز (سچن) گمبھیر اور خود سہواگ بھی ٹیم میں کھیلنا چاہتے تھے۔ کچھ وقت پہلے کپتان مہندر سنگھ دھونی کے خاص دوستوں و سابق کرکٹروں نے باتوں باتوں میں بتایا تھا کہ کس طرح ٹیم میں گروپ بازی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا تھا اکثر ان کی ٹیم انڈیا کے کپتان سے بات ہوتی رہتی ہے۔ اب لگتا ہے کہ ٹیم انڈیا میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ رہی سہی کسر اس نئی باری کی پالیسی نے پوری کردی ہے۔ جب تک گیری کرسٹن ٹیم کے کوچ ہوا کرتے تھے وہ پوری ٹیم کو ساتھ جوڑ کر رکھتے تھے کیونکہ وہ خود ایک دم نوجوان تھے لہٰذا سینئر جونیئر کھلاڑیوں کے درمیان ایک اچھی کڑی کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی اختلاف کی حالت بنتی بھی تو وہ فوراً اسے سنبھال لیا کرتے تھے۔ اب لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ کام اب کپتان مہندر سنگھ دھونی کی کرپارہے ہیں۔ نئے کوچ فلیچر گیٹی کی طرح ٹیم کو متحد رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
فلیچر خود 64 سال کے ہیں تجربہ کار تو ہیں لیکن قریب 10 مہینے سے ٹیم سے وابستہ ہیں اور یہ وقت ٹیم انڈیا کا پچھلے دو دہائیوں میں سب سے زیادہ خراب چل رہا ہے۔ کسی بھی پہلو سے وہ ٹیم کے کام آتے نہیں دکھائی پڑ رہے ہیں۔ نہ تو وہ ٹیم انڈیا کے لئے مشعل راہ ثابت ہورہے ہیں اور نہ ہی ایک اچھے منتظم۔ اس لئے ٹیم عجیب و غریب تجربات اور بحران کے دور سے گذر رہی ہے۔ حکمت عملی نہیں بن پارہی ہے اور سبھی کھلاڑی ایک الگ ذہنی حالات سے دوچار ہیں۔ روٹیشن کی پالیسی پر چھڑے تنازعے سے لگتا ہے کہ ٹیم میں شخصیت کو اہمیت دی جارہی ہے۔ اسی پالیسی سے صاف جھلکتا ہے کہ اس کے ذریعے سینئروں کے ساتھ بھدا مذاق کیا جارہا ہے۔ سینئروں کی بات کریں تو سابق کپتان کپل دیو نے ماسٹر بلاسٹر سچن تندولکر کو اس کی ناکامیوں پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ سچن کو اب سنیاس لینے کا اعلان کردینا چاہئے۔ کپل نے کہا پچھلے تین مہینوں میں جو ہم نے دیکھا ہے اسے دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ سچن کو ورلڈ کپ کے بعد یا اس سے پہلے سچن کو سنیاس لینے کا اعلان کردینا چاہئے تھا۔ کرکٹ یا کوئی بھی کھیل اس معاملے میں بہت الگ ہوتا ہے جب تک آپ جیتتے رہتے ہیں یا اچھا کھیل دکھاتے ہیں سب ٹھیک ٹھاک رہتا ہے اور جیسے ہی آپ ہارنا شروع کرتے ہیں تو ایسی ساری باتیں ہونے لگتی ہیں۔
  Anil Narendra, Cricket Match, Daily Pratap, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟