دگوجے جیسے دوست ہوں تو کانگریس کو دشمنوں کی ضرورت نہیں


Published On 14th January 2012
انل نریندر
اپنے متنازعہ بیانات کے لئے مشہور کانگریس لیڈر دگوجے سنگھ نے ایک بار پھر ایسا بیان دے دیا ہے جس سے ان کی اپنی پارٹی اور حکومت ہی کٹہرے میں کھڑی ہوگئی ہے۔ اترپردیش چناؤ میں مسلم ووٹوں کے پولارائزیشن کی کانگریسی جدوجہد میں آخرکار جنوبی دہلی کا بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا جن بوتل سے باہر نکل ہی آیا ہے۔ دگوجے سنگھ کا پروجیکٹ اعظم گڑھ بدھوار کو اس وقت خلاف ہوگیا جب مسلم لڑکوں کی زبردست مخالفت کے بعد انہیں بغیر ریلی کئے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے سے پریشان دگوجے سنگھ نے کہا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر فرضی تھا لیکن وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا خیال ہے کہ انکاؤنٹر صحیح تھا اس وجہ سے ہم نے اس بات کو آگے نہیں بڑھایا۔ دگوجے سنگھ نے یہ بھی بیان اسی اعظم گڑھ میں دیا جو اس انکاؤنٹرکے بعد آتنکی نرسری کی شکل میں دکھایاجانے لگاتھا اس دورے میں مسلم ووٹوں کے پولارائزیشن کی کوشش کررہی کانگریس کے اسٹار کمپینر راہل گاندھی کو اعظم گڑھ کے شبلی کالج سے بغیر ریلی کے واپس جانا پڑا۔ علماء کونسل کے ورکروں نے سال2008ء میں دہلی میں ہوئے بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ کانڈ کی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے شبلی کالج کے دروازے پر نعرے بازی کی اور راہل گاندھی کا پتلا تک جلایا۔ راہل شبلی کالج کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کونسل کے صدر عامرارشادی نے اس بارے میں بتایا کہ انہوں نے راہل کو پہلے ہی آگاہ کیا تھا کہ اگر راہل بٹلہ ہاؤس کی جانچ ہوئے بغیر اعظم گڑھ آئے تو انہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔دگوجے سنگھ نے پھر دوہرایا کہ میں مانتا ہوں بٹلہ ہاؤس مڈبھیڑ فرضی تھی لیکن پردھان منتری و وزیر داخلہ اسے جائز مانتے ہیں اس لئے ہمیں اپنی جانچ کی مانگ کو چھوڑنا پڑا۔
سیدھے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو کٹہرے میں کھڑا کر اترپردیش میں بھلے ہی دگوجے سنگھ نے اپنے جائزے محسوس کرلئے ہوں لیکن مرکز میں کانگریس اس سے تھوڑا ضرور بے چین ہوگی۔ وہیں مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید نے اقلیتی ریزرویشن کو دوگنا کرنے کا اعلان کر خود کو اور حکومت دونوں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اعظم گڑھ میں مسلمانوں نے دگوجے سنگھ کی اس صفائی کوکتنا سچ مانا یہ تو نہیں پتہ لیکن انہوں نے اپنی ہی سرکار کے دونوں بڑے لیڈروں کو ضرور کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ یوپی چناؤ کے چلتے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے دگوجے سنگھ نے منموہن سنگھ اور پی چدمبرم کو کیوں نشانہ بنایا؟ اس پر کانگریس نے کچھ بھی بولنے سے منع کردیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان منیش تیواری نے کہا کہ کانگریس پہلے ہی اس مڈ بھیڑ پر اپنی رائے دے چکی ہے۔ نئے معاملے پر اسے کچھ نہیں کہنا۔ دراصل کانگریس پارٹی دگوجے سنگھ کے اس بیان سے بری طرح پھنس گئی ہے۔ ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔ نہ تو وہ دگوجے سنگھ کی مخالف کرسکتی ہے کیونکہ ان کے سر پر راہل گاندھی کا ہاتھ ہے اور نہ ہی اپنے منموہن سنگھ ، چدمبرم جیسے سینئر لیڈروں کی مخالفت میں جاسکتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے وزیر قانون سلمان خورشید کا بیان بھی تنازعات میں گھر گیا ہے۔ انہیں چناؤ کمیشن کا نوٹس بھی مل گیا ہے لیکن سیاسی نقصان یہی ہے کہ پسماندہ طبقات پر داؤ لگا رہی کانگریس کے خلاف یہ بات جاسکتی ہے کیونکہ اگر اقلیتوں کا ریزرویشن کوٹہ دوگنا ہوتا ہے تو اس سے پسماندہ طبقے کا حق مارا جائے گا لہٰذا پارٹی کے لئے ان کا بیان بھی گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔
Anil Narendra, Batla House Encounter, Daily Pratap, Digvijay Singh, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟