یوپی میں مورتیوں پر پردہ ڈالنے سے کیا حاصل ہوگا؟



Published On 10th January 2012
انل نریندر
چناؤ کمیشن نے حکم دیا ہے کہ اترپردیش میں آزادانہ ، منصفانہ چناؤکرانے کے غرض لکھنؤ اور ریاست کے کئی حصوں میں لگی وزیراعلی مایاوتی اور بہوجن سماج کا چناؤ نشان ہاتھی کے مجسموں پر چناؤ تک پردہ ڈال دیا جائے۔ چناؤ کمیشن کا یہ فرمان اندرا گاندھی، راجیوگاندھی اور ایسے دیگرسیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے مجسموں پر بھی لاگو ہوتا ہے جن سے ووٹر متاثر ہوسکتے ہیں۔ چناؤ کمیشن نے کہا کہ چناؤ ضابطہ لاگو ہونے کی وجہ سے اس حکم کو فوراً نافذ کردیا جائے۔ چناؤ کمیشن کے اس فیصلے کے سبب نوئیڈا کے قومی دلت پریرنا استھل اور لکھنؤ میں 9 مقامات پر مایاوتی اور ہاتھی کے بت متاثر ہوں گے۔ بسپا میں اس کا سخت احتجاج ہونا فطری تھا۔ چناؤ کمیشن کے اس متنازعہ فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہرکرتے ہوئے بسپا کے سکریٹری جنرل ستیش مشرا نے کہا کہ اگر چناؤ نشان ڈھکنے کی بات ہے تو کیا کمیشن ہر کسی کو اپنے ہاتھ کے پنجے کٹوانے یا ڈھکنے کا حکم دے گا کیونکہ یہ کانگریس کا چناؤ نشان ہے؟ یہ ہی نہیں بھاجپا کا چناؤ نشان کمل کا پھول ہے ،تو کیا کمیشن ہر تالاب سے کمل کے پھول نکلوا لے گا؟ انہوں نے کہا سائیکل سپا کا چناؤ نشان ہے تو کیا چناؤ کمیشن اسے چلانے پر روک لگادے گا۔ مشر کا کہنا ہے کہ مرکز کی حکومت کی قریب 150 اسکیمیں گاندھی ،نہرو پریوار کے نام سے چلتی ہیں تو کیا کمیشن انہیں بھی بند کردے گا؟ یہاں ہم یہ بات قبول کرتے ہیں کہ یہ قدم بھلے ہی سبھی سیاسی پارٹیوں کو یکساں طور پر عمل کرنے کی بنیاد پر اٹھایاگیا ہے لیکن ہم اس کا وقت اور اس کے جواز پر ضرور اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم سمجھ سکتے تھے کہ چناؤ کمیشن کو اگر ایسا کوئی فیصلہ لینا ہی تھا تو اسے قریب15 مہینے پہلے جب یہ معاملہ سامنے آیا تھا مایاوتی سرکار پبلک خزانے سے مختلف پارکوں میں ہاتھیوں کی مورتیاں لگوا رہی ہے ، تو کیوں نہیں اسے روکا گیا؟ ایک لمحے کے لئے یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ مایاوتی اور ہاتھیوں کی ان مورتیوں کو ڈھک دیا جائے جو سڑکوں اور چوراہوں پر لگائی گئی ہیں لیکن آخر چار دیواری سے گھرے پارکوں میں بنی مورتیوں پر پردہ ڈالنے سے کیا حاصل ہوگا؟ پارکوں میں آنے والوں کو ان مورتیوں کے وہاں ہونے کا پتہ ہے اور ڈھکی ہوئی مورتیاں الٹے انہیں زیادہ ہی احساس کرائیں گی۔ اگر چناؤ کمیشن اتنا ہی غیر جانبدار ہے تو اس نے پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ کے اعلان سے پہلے مرکزی سرکار کے ذریعے اقلیتوں کو ساڑھے چار فیصدی ریزرویشن دینے کے فیصلے پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ اتنا ہی نہیں کمیشن نے چناؤ ضابطہ لاگو ہونے کے بعد دلتوں اور پسماندہ طبقوں کی خالی آسامیوں کو بھرنے کے لئے مرکزی حکومت کے اعلان پر بھی خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھا۔ اترپردیش کے مختلف اضلاع میں سفید سنگ مرمر کے یہ ہاتھی ''دلت وجے'' کی علامت کی شکل میں کھڑے کئے گئے ہیں۔ اب پردے میں ڈھکے یہ ہی ہاتھی اگر دلتوں کی توہین کی شکل میں ان چناؤ میں پروپگنڈہ کئے جائیں تو مقابلتاً اس کا کیا توڑ نکالیں گے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ بیشک بسپا اس کی مخالفت کرے گی لیکن اتنا تو ہے کہ ریاست کی نوکرشاہ برادری کو سمجھ میں آجائے گا کہ وہ تھوڑی غیر جانبداری برتے اور حکمراں حکومت کے غلام بن کر کام نہ کرے؟ لیکن اس سے کہیں بڑا مسئلہ چناؤ میں استعمال ہونے والا کالا دھن۔ پچھلے دو تین دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کروڑوں روپے برآمد ہوچکے ہیں جن کا استعمال چناؤ میں ہونا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر وائی ایس قریشی نے مانا کہ اترپردیش ،پنجاب، گوا میں انتخابات کو کالی کمائی سے مستثنیٰ رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ خیال رہے کہ جب انا ہزارے انتخابات میں کالی کمائی کے مسئلے پر روشنی ڈالی تھی تو تمام سیاسی پارٹیوں نے انا ہزارے کی جم کر مخالفت کی تھی۔ انا نے بس اتنا کہا تھا کہ ان کے جیسا فقیر چناؤ میں کبھی جیت نہیں سکتا کیونکہ فیصلہ تو دھن اور بل پر ہوتا ہے۔ بیشک چناؤ کمیشن نے اس بار چناؤ میں امیدواروں کے خرچ پر گہری نظر رکھنے کے لئے خصوصی انتظام کئے اور انکم ٹیکس محکمے کو بھی اس میں جھونک دیا لیکن سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ عہدیداران کے خرچ کی حد طے ہے۔ لیکن وہیں سیاسی پارٹیوں پر ایسی کوئی بندش نہیں ہے۔ ایک اور مسئلے کی طرف ہم الیکشن کمیشن کی توجہ دلانا چاہیں گے وہ پیٹ نیوز کا معاملہ ہے۔ مختلف اخباروں میں ہم سیاسی پارٹیوں کے منعقدہ پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ بسپا کی مخصوص مہم کئی دنوں سے چل رہی ہے۔ اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر عام خبروں کے درمیان ایسا پوشیدہ سندیش ہوتا ہے جو ووٹروں کو متاثر کرتا ہے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ کل ملاکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مورتیوں پر پردہ ڈالنے سے شاید کوئی فائدہ ہو؟
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Daily Pratap, Election Commission, Elections, Elephant, Mayawati, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!