پاکستان کے اصل سی آئی اے ایجنٹ
Published On 10th January 2012
انل نریندر
گذشتہ ہفتے پاکستان کے کچھ سینئر صحافی ہمارے دفتر میں آئے تھے۔ ہم نے ان کے خیر مقدم کے لئے شاندار پروگرام بنایا تھا۔ ان میں جناب محمود شام، ایاز بادشاہ قابل ذکر تھے۔ دراصل یہ لوگ حیدر آباد میں منعقدہ اردو ایڈیٹرز کا نفرس میں شرکت کے لئے دہلی آئے تھے۔انہوں نے دہلی میں دو دن قیام کیا۔ ان سے کافی تبادلہ خیال ہوا۔ دونوں طرف کی کئی نئی معلومات ملیں۔ میں نے اپنی خیر مقدمی تقریر میں کہا ''پاکستان آج صحافیوں چاہے وہ اخبار کے ہوں یا ٹیلی ویژن کے ہوں ،کیلئے دنیا کا سب سے خطرناک دیش بن گیا ہے۔ پاکستان میں آزادانہ رائے رکھنے والے صحافیوں کے لئے یہ ایک مشکل دور ہے۔ اپنے فرض کی تعمیل کے دوران اس پیشے سے جوڑے 11 لوگوں کو 2011ء میں مار ڈالا گیا۔ ان لوگوں کا قتل یا تو نسلی گروپوں کے درمیان ہونے والی گولہ باری یا کٹر پسندانہ تشدد یا پھر سیاسی نظریات کے چلتے کیاگیا۔ مثال کے طور پر گذشتہ برس سلیم شہزاد کے اغوا اور قتل میں سرکار کی مشینری کا ہاتھ ہونے کا الزام تھا جبکہ اس معاملے کی جانچ کے لئے قائم کمیشن ابھی ہوا میں ہی تیر چلا رہا ہے۔ سلیم شہزاد نے مسلح فورس کے ان لوگوں کا پردہ فاش کیا تھا جن کا القاعدہ یا طالبان کے ساتھ قریبی رشتہ تھا۔ پچھلے دنوں بلوچستان میں راشٹروادی نظریات یا پھر سکیورٹی فورس کے ذریعے کی جارہی ذیاتیوں کو اجاگر کرنے والے کئی صحافیوں کو قتل کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے خوفزدہ صحافیوں کو امریکہ جیسے ملکوں میں پناہ دئے جانے کی درخواست کرنی پڑی۔ کراچی میں کچھ صحافیوں کو نسلی گروپ یا سیاسی پارٹیوں کے ذریعے مل رہی دھمکیوں کے چلتے بیرون ملک میں محفوظ ٹھکانے تلاشنے پڑے۔ اس سلسلے میں میں نے پاکستان کے سینئر صحافی مسٹر نجم سیٹھی کا ایک آرٹیکل مڈ ڈے میں پڑھا انہوں نے بتایا کہ اب سکیورٹی نظام کے کرتا دھرتا لوگوں کی سمجھ پر چبھتے ہوئے سوال اٹھانے کے چلتے کچھ سینئر صحافیوں کے خلاف بربریت آمیز پروپگنڈہ چلایا جارہا ہے۔ ان کو امریکہ کی خفیہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہونے تک کا الزام لگایا جارہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ امریکی مخالف ماحول میں اس طرح کے الزامات لوگوں کو بھڑکانے کے لئے لگائے جارہے ہیں۔ مان لیجئے کہ اگر آپ نے کہہ دیا کہ ایبٹ آباد میں ہوئے امریکی حملے نے فوج کی نا اہلیت کی پول کھول دی ہے تو کیا آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ یا آپ نے کہہ دیا کہ سیاسی مسائل کا کنٹرول فوج پر ہونا چاہئے تو کیا آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ فوج کو طالبان کے ساتھ کسی طرح کی امن بات چیت میں شامل نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اس سے ان کو پاکستانی خطے میں پھر منظم ہونے کا موقعہ مل جائے گا تو کیا آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ڈرون جہازوں کے حملوں کے چلتے وزیرستان میں طالبان اور القاعدہ کے کٹر پسندوں کو ختم کرنے میں بڑی مدد کی تو آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ اگر آپ نے کہہ دیا کہ فوج کے لئے مختص بجٹ کا جو ملک کی کل رقم کا ایک چوتھائی ہے، جانچ پارلیمنٹ کی کمیٹی یا پاکستان کے آڈیٹر جنرل کے ذریعے کی جانی چاہئے تو آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کو تجارتی سیکٹر میں انتہائی مطلوب ملک کا درجہ دینا چاہئے جسے بھارت نے پاکستان کو 16 برس پہلے ہی دے دیا تھا۔یا ویزا شرطوں میں ڈھیل دینی چاہئے، یا فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں کو مدد کرنے کے لئے بھارت سے ثقافتی رشتے بڑھانا چاہئیں۔ یا میڈیا گروپ کے ذریعے چلائی جارہی 'امن کی آشا' پروگرام کو سرکارکو حمایت دینی چاہئے تو کیا آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ سابق امریکی سفیر حسین حقانی اور آئی ایس آئی چیف شجاع پاشا کے معاملے میں ایک اور یکساں استعفے کی پالیسی اپنانے چاہئے ،ایک کے اوپر امریکی سرکار کو پاکستانی فوج کے اوپر سرکار کیلئے کنٹرول کی حمایت مانگنے کا الزام ہے جبکہ دوسرے پر عرب حکمرانوں سے منتخبہ سرکار کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپیل کرنے کا الزام ہے تو آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ سرکار کو قومی سلامتی سے زیادہ عوام کی حالت بہتر بنانے والی پالیسیاں بنانی چاہئیں تو کیا آپ سی آئی اے ایجنٹ ہوگئے۔ بدقسمتی سب سے بڑی یہ ہے کہ جن لوگوں نے امریکہ کے بڑھتے اثر کو بے نقاب کیا ہے اس کی مخالفت کی ہے انہیں ہی بدنام کرنے کیلئے ان پر سی آئی اے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ پاکستان میں آج صحافی عوام کے مفاد میں کسی بھی طرح کی آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں صحافیوں کے لئے آج کی تاریخ میں پاکستان سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔ اس دنیا میں اور ان حالات میں بھی یہ صحافی اپنے فرائض کو نبھا رہے ہیں ان کو ہمارا سلام۔
Anil Narendra, CIA, Daily Pratap, ISI, Pakistan, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں