بری چیف کی عمر کو لیکر غیر ضروری تنازعہ



Published On 8th January 2012
انل نریندر
پچھلے کئی دنوں سے بحریہ فوج کے جنرل وی کے سنگھ کی عمرکو لیکر ایک غیر ضروری تنازعہ چھڑا ہوا ہے۔ دراصل ریکارڈ میں ان کی پیدائش کی دو تاریخیں درج ہیں۔ فوج کے سربراہ چاہتے تھے کہ ان کی یوم پیدائش سرکاری دستاویز میں16 مئی 1950ء سے10 مئی 1951ء کی جائے۔ ایسا کرنے سے ان کی ملازمت کی میعاد ایک سال بڑھ جاتی ہے۔ وزارت دفاع نے جنرل سنگھ کی جانب سے ان کے یوم پیدائش بدلنے کی عرضی کو خارج کردیا تھا۔ ان کے یوم پیدائش کو لیکر پیدا ہوئے تنازعے میں سرکار کے آجانے کے بعد اپنے عہدے کے وقار کے مطابق جنرل وی کے سنگھ صبر سے کام لے رہے ہیں لیکن کئی ایسی باتیں ہیں جو جنرل سنگھ کے حق میں جاتی ہیں۔ وزارت قانون کے ایک جوائنٹ سکریٹری کے مطابق وزارت نے یوم پیدائش سے متعلق ان کے دعوے کوصحیح ٹھہرایاتھا۔ ذرائع کے مطابق یوم پیدائش کا تنازعہ بڑھنے پر ڈیفنس وزارت نے قانون وزارت سے اس سلسلے میں رائے مانگی تھی جس پر وزارت قانون نے اپنی یہ صلاح دی تھی۔
اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جے ایس ورما سمیت دیگر تین سابق ججوں نے بھی جنرل وی کے سنگھ کے دعوے کو صحیح مانا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کئی مہینوں میں یہ پہلا معاملہ وزارت کے پاس آیا تھا۔ تب ویرپا موئلی ملک کے وزیر قانون تھے اور اس وقت ایڈیشنل سکریٹری آر ایل کوہلی تھے۔ کوہلی نے اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل سنگھ کے میٹرک کے سر ٹیفکیٹ میں درج عمر کو صحیح مانا تھا۔ بتایا جاتا ہے کوہلی کی اس رائے سے جے ایس ورما اور جسٹس چندر بھوڑ اور دو دیگر جج بھی اتفاق رکھتے تھے لیکن بعد میں سرکار نے اس معاملے میں اٹارنی جنرل واہنوتی سے بھی رائے مانگی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے واہنوتی نے قانون و انصاف وزارت کی رائے کو پوری طرح سے پلٹ دیا۔ انہوں نے جنرل کی یوم پیدائش 10 مئی1950ء کو ہی صحیح بتایا تھا۔ واہنوتی کی رائے کو قطعی مانتے ہوئے وزارت دفاع نے اپنا فیصلہ لیا۔ دراصل نیشنل ڈیفنس اکیڈمی میں 1966ء میں داخلے کے بعد جنرل وی کے سنگھ نے سبھی دستاویزات میں اپنی یوم پیدائش1951ء درج کرائی تھی۔ اس میں صدر کی جانب سے 2009ء میں دئے گئے اعزاز پرم وشسٹ سیوا میڈل کا سرٹیفکیٹ بھی شامل ہے۔ ڈیفنس وزارت کا کہنا ہے کہ جنرل سنگھ کے دعوے کو قبول کرنے پر انہیں دو کے بجائے تین برس کی توسیع دینی پڑے گی جو اگلے فوج کے سربراہوں کو جانشینی سونپنے کی اسکیم میں مشکلیں کھڑی کرے گا۔ سرکار کی یہ دلیل بے تکی ہی نہیں بلکہ اس کی قلعی بھی کھولتی ہے۔
آخر اندرا گاندھی نے جنرل کرشنا راؤ کے بعد سینئرٹی میں سب سے اوپر اور بیحد معزز لیفٹیننٹ جنرل ایس کے سنہا کو نظر انداز کر جنرل وید کو فوج کا چیف بنایا تھا۔ اہلیت اور سخت رویئے کے سبب ہی تب جنرل سنہا کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اگر جنرل سنگھ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تووہ نہ صرف ایسا کرنے والے پہلے فوج کے سربراہ ہوں گے بلکہ اس طرح ان کا موقف مضبوط ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ سرکار کے لئے شرمندگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے میں بہتر یہ ہی ہوگا کہ سرکار اس کا قابل قبول حل تلاش کرے۔ ویسے بھی سرکار کو اس تنازعے میں نہیں پڑنا چاہئے تھا۔ اس سے جنرل وی کے سنگھ اور بھارتیہ فوج کی ساکھ بھی خراب ہورہی ہے۔ یہ غیر ضروری تنازعہ جتنی جلدی ختم ہو اتنا ہی سب کے لئے اچھا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Indian Army, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟