کیمرے سے گیا سوال اور بلو ٹوتھ سے آیا جواب
ہر معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اچھا اور ایک برا۔ مثال کے طور پر جب سچائی کو اجاگر کیا گیا تھا تو اس کا فائدہ قوت پیدا کرنے میں بھی لگا اور ایٹم بم بنانے میں بھی ہوا۔ یہ منحصر کرتا ہے تکنیک کا استعمال کرنے والے پر اور اس کے مقصد پر۔ میں نے کم سے کم یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ایک امتحان میں اس کا ایسے بھی استعمال ہوسکتا ہے جیسے راجدھانی دہلی میں ایمس کے آل انڈیا پوسٹ گریجویٹ میڈیکل امتحان میں ہوا۔ پولیس نے ایتوار کو اس ہائی ٹیک چیٹنگ گروہ کو بے نقاب کیا ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں ایک ڈاکٹر( امتحان دینے والا) دو ایم بی بی ایس ، اور ایک ایم بی بی ایس کورس کے سال دوم کے طالبعلم اور ایک ڈگری یافتہ لڑکے کو گرفتار کیا ہے۔ اسپیشل سیل کے ڈپٹی کمشنر اشوک چاند کے مطابق محض 30 منٹ میں امتحان کا پرچہ لیک ہوگیا تھا۔ گروہ نے ہر طالبعلم سے 25 سے30 لاکھ روپے لیکر آدھا درجن طلبہ کا پرچہ ہل کرایا تھا۔ چاند کے مطابق دیش کے سرکاری کالجوں میں پوسٹ گریجویٹ کی 50 فیصدی سیٹوں کو بھرنے کیلئے ایمس کی جانب سے پی جی میڈیکل کامن ٹیسٹ 2012ء کا انعقاد ایتوار کو کیا تھا۔ اس کے لئے 15 ریاستوں میں 150 امتحان گاہ بنائی گئی تھیں۔ ان مراکز میں قریب70 ہزار طالبعلم بیٹھے تھے۔ امتحان دینے ایم او ایس انسپکٹر راجیش کمار نے ایک خفیہ اطلاع پر پرگتی میدان کے پاس جال بچھا کر بلند شہر کے 23 سالہ لڑکے موہت چودھری کو گرفتار کرکے 23 صفحات پر مبنی کتابچہ برآمد کیا۔ موہت نے بتایا اس کے دو ساتھیوں نے نوئیڈا سیکٹر28 میں واقع امتحان گاہ سے پرچہ لیک کیا اور اس کے بعد پولیس نے جیور کے ایک لڑکے کپل کمار اور کرشن پرتاپ کو دبوچ لیا۔ ان سے دو ہائی ٹیک موبائل ،بلو ٹوتھ ڈیوائس لگی دو شرٹ اور ایک ایئر فون برآمدہوا۔
ایمس کے پی جی اسٹیٹ امتحان کا پرچہ لیک کرنے والے اس گروہ کا سسٹم اتنا ہائی ٹیک اور فول پروف و تیز تھا کہ پورے پیج کو لیک کرنے میں انہیں محض23 منٹ لگے۔ ایک منٹ میں ایک پیج اسکین ہوکر میل سے آٹومیٹک اس کے پاس کنٹرول روم میں پہنچ جاتا تھا۔بک لیٹ کے ایک صفحہ اسکین اور میل کرنے میں ایک سیکنڈ کا وقت لگتا تھا اس حساب سے23 صفحے ایک ایک بک لیٹ کے لیک ہونے میں محض23 منٹ لگے۔ اس حساب سے آدھے گھنٹے میں پورا پیپر ان کے ہاتھ میں تھا۔ داخلہ امتحان 10 بجے شروع ہوا اور ساڑھے دس بجے پیپر ان کے پاس تھا۔اجین میں واقع میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کررہا موہت چودھری اس گروہ کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ موہت نے کپل کمار اور کرشن پرتاپ کو فرضی ڈاکٹر دکھا کر فرضی کاغذات کے ذریعے امتحان گاہ کا ایڈمٹ کارڈ حاصل کیا تھا اور ان کے ہاتھوں کی کلائی میں ہائی ٹیک کیمرہ لگا ہوا تھا۔ جب سوال نامے کی بک لیٹ ان کے پاس آئی تو انہوں نے اس کیمرے میں اس کے صفحوں کو اسکین کرلیا۔ یہ بلو ٹوتھ تکنیک سے لیس ایسا فون تھا کہ جیسے ہی پیج اسکین ہوتا تھا کنٹرول روم میں بنے میل پر چلا جاتا تھا۔ کنٹرول روم میں بھیشم سنگھ (ایک کمپیوٹر پروگرامر) میل کے پرنٹ نکال لیتا تھا اور پرنٹ نکال کر بھیشم سنگھ کچھ ماہرین کی مدد سے سوالات کو ہل کرکے امتحان گاہ میں بیٹھے ڈاکٹر کے ایئر فون پر جواب بتا دیتے تھے۔ امتحان دینے والے طلبا نے بھی شرٹ کی کالر میں بلو ٹوتھ چھپا کر کالر سلوا رکھا تھا اور سارا پیپر محض 30 منٹ میں ہل ہوجاتے تھے۔ دیکھئے کہاں جاکر ان لوگوں نے دماغ لگایا اور اس جدید وائر لیس تکنیک کا فائدہ اٹھا۔ یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ تجربہ ہے اور اب بھارت میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امتحان لینے والے افسران کو اس پر توجہ دینی ہوگی اور بلو ٹوتھ جیسے ڈیوائس امتحان گاہ میں لے جانے پر پابندی لگانی ہوگی۔ اسے کہتے ہیں دماغ کی ہوشیاری۔
ایمس کے پی جی اسٹیٹ امتحان کا پرچہ لیک کرنے والے اس گروہ کا سسٹم اتنا ہائی ٹیک اور فول پروف و تیز تھا کہ پورے پیج کو لیک کرنے میں انہیں محض23 منٹ لگے۔ ایک منٹ میں ایک پیج اسکین ہوکر میل سے آٹومیٹک اس کے پاس کنٹرول روم میں پہنچ جاتا تھا۔بک لیٹ کے ایک صفحہ اسکین اور میل کرنے میں ایک سیکنڈ کا وقت لگتا تھا اس حساب سے23 صفحے ایک ایک بک لیٹ کے لیک ہونے میں محض23 منٹ لگے۔ اس حساب سے آدھے گھنٹے میں پورا پیپر ان کے ہاتھ میں تھا۔ داخلہ امتحان 10 بجے شروع ہوا اور ساڑھے دس بجے پیپر ان کے پاس تھا۔اجین میں واقع میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کررہا موہت چودھری اس گروہ کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ موہت نے کپل کمار اور کرشن پرتاپ کو فرضی ڈاکٹر دکھا کر فرضی کاغذات کے ذریعے امتحان گاہ کا ایڈمٹ کارڈ حاصل کیا تھا اور ان کے ہاتھوں کی کلائی میں ہائی ٹیک کیمرہ لگا ہوا تھا۔ جب سوال نامے کی بک لیٹ ان کے پاس آئی تو انہوں نے اس کیمرے میں اس کے صفحوں کو اسکین کرلیا۔ یہ بلو ٹوتھ تکنیک سے لیس ایسا فون تھا کہ جیسے ہی پیج اسکین ہوتا تھا کنٹرول روم میں بنے میل پر چلا جاتا تھا۔ کنٹرول روم میں بھیشم سنگھ (ایک کمپیوٹر پروگرامر) میل کے پرنٹ نکال لیتا تھا اور پرنٹ نکال کر بھیشم سنگھ کچھ ماہرین کی مدد سے سوالات کو ہل کرکے امتحان گاہ میں بیٹھے ڈاکٹر کے ایئر فون پر جواب بتا دیتے تھے۔ امتحان دینے والے طلبا نے بھی شرٹ کی کالر میں بلو ٹوتھ چھپا کر کالر سلوا رکھا تھا اور سارا پیپر محض 30 منٹ میں ہل ہوجاتے تھے۔ دیکھئے کہاں جاکر ان لوگوں نے دماغ لگایا اور اس جدید وائر لیس تکنیک کا فائدہ اٹھا۔ یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ تجربہ ہے اور اب بھارت میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امتحان لینے والے افسران کو اس پر توجہ دینی ہوگی اور بلو ٹوتھ جیسے ڈیوائس امتحان گاہ میں لے جانے پر پابندی لگانی ہوگی۔ اسے کہتے ہیں دماغ کی ہوشیاری۔
AIIMS, Anil Narendra, Daily Pratap, delhi Police, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں