سلمان رشدی کی یاترا کو لیکر یوپی کی سیاست میں بھونچال


Published On 13th January 2012
انل نریندر
اسلامی دنیا میں بدنام سیٹنک ورسس جیسی بیہودہ کتاب لکھنے والے سلمان رشدی کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ یوپی کے چناؤ کے ٹھیک پہلے وہ بھارت آنا چاہ رہے ہیں۔ رشدی کے دورے کو لیکر مسلمانوں میں اچانک بے چینی پیدا ہونا فطری ہی ہے۔ مسلم جماعتوں نے حکومت ہند کو اس مسئلے پر گھیرنا شروع کردیا ہے۔ مسلم لیڈروں کا کہنا ہے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز رائے زنی کرنے والے رشدی کو بھارت آنے کی اجازت دینے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ حالانکہ یہ پہلا موقعہ نہیں جب سلمان رشدی بھارت آرہے ہیں۔ لیکن ان کے آنے کے وقت پر ضرور تھوڑا تعجب ہورہا ہے۔ رشدی کے ناول 'دی سیٹنک ورسس' پر تنازعے کے بعد حکومت ہند نے ان کے دورۂ بھارت پر پابندی لگانے کے ساتھ ہی کتاب کی فروخت پر بھی پابندی لگا دی تھی اور طویل عرصے کے بعد این ڈی اے حکومت نے پہلی بار رشدی کو بھارت آنے کی اجازت دی تھی لیکن کتاب پر پابندی جاری رکھی تھی۔ اب جے پور میں 21 جنوری کو ہونے والے ساہتیہ سمیلن میں رشدی کے ممکنہ دورہ کو لیکر احتجاج کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ علماچاہتے ہیں کہ حکومت ہند سلمان رشدی کو ہندوستان آنے کی اجازت نہ دے۔ اسلامک سینٹر آف انڈیا کی جانب سے منگلوار کو اس سلسلے میں وزیر اعظم کو خط بھی لکھا گیا ہے۔ اس مرکز کے سربراہ مولانا خالد رشید پھرنگی محلی نے کہا کہ سلمان رشدی کو بھارت آنے کی اجازت دینے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے بھی سلمان رشدی کو لیکر اپنا احتجاج درج کیا ہے۔بھارت میں پیدا برطانوی شہری رشدی کے پاس دراصل پی آئی او کارڈ ہے جو انہیں بغیر ویزا بھارت آنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسے میں حکومت اگر انہیں روکنا بھی چاہے تو اسے سب سے پہلے تو رشدی کو دیا گیا اوور سیز انڈین سٹی زن کارڈ یعنی پی آئی او واپس لینا ہوگا۔ اس درمیان اپنے مخالفین کو چڑانے کیلئے رشدی نے سوشل نیٹورکنگ ویب سائٹ ٹیوٹر پر پیغام لکھا ہے کہ بھارت آنے کے لئے انہیں کسی ویزا کی ضرورت نہیں ہے۔ قابل ذکر ہے ایشیا کی اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے سب سے پہلے رشدی کے مجوزہ دورہ کو منسوخ کرنے کی مانگ کی تھی۔ حکومت ہند نے فی الحال اپنی طرف سے براہ راست کسی مداخلت سے تو ہاتھ کھڑے کردئے ہیں لیکن اتنا سندیش ضرور دیا ہے جسے بھی شکایت ہے کہ وہ قانون و انتظام کے سامنے اپنی بات رکھے۔ مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید نے کہا قانون میں اگر ان کے دورہ پر روک لگانے کا سسٹم ہے تو روک لگانی چاہئے لیکن ہم قانون و انتظام سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا انہیں فکر ہے اور جو سمجھتے ہیں کہ کارروائی ہونی چاہئے ، وہ قانون کا سہارا لیں۔ وہیں وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا سرکار مخصوص حالات میں پی آئی او کارڈ یافتہ کو ملک میں داخل ہونے پر پابندی لگا سکتی ہے۔کیونکہ ان کے دورہ سے قانون و انتظام کے حالات بگڑنے کا خطرہ ہو، دیش کی اندرونی سلامتی کو نقصان پہنچانے جیسے معاملوں میں حکومت اس طرح کا فیصلہ لے سکتی ہے۔
سلمان رشدی جیسے بیہودہ مصنف پر ہر مذہبی شخص کو ناراضگی ہونی چاہئے۔ سستی مقبولیت اور چاندی کے چند سکوں کے لئے آپ کسی مذہب یا عالم کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔ چاہے وہ سلمان رشدی ہو یا ایم ایف حسین ہوں ہماری نظروں میں تو دونوں نے ایسا کام کیا ہے جس سے انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے انہیں ایسا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے تھا۔ حسین جیسے مشہور مصور کو بھلا کیا ضرورت پڑی تھی کہ ماں سرسوتی کی بیہودہ تصویریں بنائے؟ کیا رشدی نے یہ کام پیسہ کمانے کے لئے کیا یا پھر سستی شہرت پانے کے لئے۔ رشدی کے مجوزہ دورہ کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ رشدی کے آنے کی آنچ مسلم اداروں تک محدود نہیں ہے یوپی کے چناؤ کی فضا میں بھی اس کی تپش بخوبی محسوس کی جارہی ہے۔عرصے بعد بمشکل مسلم سماج میں جگہ بنا پا رہی کانگریس چناوی ثمر کے دوران نہیں چاہتی کہ ایسا کچھ ہو۔ مسلم ووٹ بدک جائیں گے۔ پردیش کے کانگریسی مسلم لیڈروں نے اس سلسلے میں دہلی دربار میں دستک دے کر رشدی کا دورہ رکوانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ وہیں کانگریس مخالف پارٹی رشدی کے بہانے ایک بار پھر کانگریس کو مسلم مخالف قرار دینے میں لگ گئی ہے۔ مسلمانوں کے سخت احتجاج کے سبب 'دی سیٹنک ورسیس' کو اکتوبر 1988 میں ہی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے تو14 فروری1989 ء کو ان کی موت کا فتوی جاری کیا تھا۔ جیسا کہ ایک شاعر نے کہا نفرت پھیلانے والے کالے پیلے اکھڑ ادیب نہیں ہو سکتے۔ میں رشدی کو مصنف نہیں مانتا۔ رشدی 'دی سیٹنک ورسیس' بدنیتی ذہنیت سے لکھی ہے اور ان کی بنیادی منشا فوری شہرت پانا تھا۔ مصنف کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہوسکتا۔ پتہ نہیں کس نے انہیں بلایا خاص طور سے چناؤ کے وقت ایسے انعقاد سے پرہیز برتا جانا چاہئے۔ ہوسکتا ہے چناؤ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی نیت رکھنے والے ایسے پروگراموں کے انعقاد کے پیچھے ہوں۔ چناؤ کمیشن کی ذمہ داری ہے وہ اس طرح کے پروگراموں کے انعقاد پر روک لگائے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Salman Rushdi, Satanic Verses, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟