بچوں پر راکھی ساونت، بگ باس جیسے ریئلٹی شو کے برے اثرات



Published On 11th January 2012
انل نریندر
ہم وزیر اطلاعات و نشریات محترمہ امبیکا سونی کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ ٹی وی چینلوں پر دکھائے جارہے فحاشی پروگراموں کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ آج کل ٹی وی ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے کچھ ٹی وی سیریل تو اتنے بیہودہ ہیں جنہیں دکھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ان پروگراموں کا سیدھا اثر گھر کے بچوں اور عورتوں پرپڑتا ہے۔ ہمارے سماجی تانے بانے کو کچھ سیریل تباہ کررہے ہیں۔ لیو ان ریلیشن شپ، جھٹ طلاق اور افیئرز، خاندان میں پیسوں کو لیکر آپسی لڑائی اور نہ جانے کیا کیا دکھایا جاتا ہے۔ انہی کے چلتے میں نے یہ سیریل دیکھنے ہی بند کردئے ہیں۔پر کیا کریں گھر کی عورتیں تو جیسے ہی شام ہوتی ہے ٹی وی پر چپک کر بیٹھ جاتی ہیں اور ہر چینل پر کونسا سیریل آرہا ہے اس کی ان کو پوری جانکاری ہوتی ہے۔ امبیکا سونی نے پہل کرکے ٹیلی کاسٹ مواد شکایت کونسل کی تشکیل دی ہے۔ پچھلے چھ مہینے میں کونسل کو رئلٹی شو بگ باس اور راکھی ساونت کے غضب دیش کے عجب قصے پروگرام کے خلاف سب سے زیادہ شکایتیں ملی ہیں۔ کونسل کو راکھی ساونت کے پروگرام کے خلاف58 شکایتیں ملیں۔ وہیں بگ باس میں سنی لیون کے آنے سے36 لوگوں نے اعتراض جتایا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ لیونی کے آنے کے بعد بچے جاننا چاہتے تھے کہ وہ کیا کرتی ہے۔ ایسے میں لیونی کے بارے میں جانتے ہوئے وہ پوری صنعت کے بارے میں بھی جاننا چاہیں گے۔ اس کے بعد بی سی سی سی نے کلرس چینل کو اگلی مرتبہ اداکاروں کو چنتے وقت احتیاط برتنے کی صلاح دی ہے وہیں غضب دیش کے عجب کہانی ،سیریل کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کی کہانی بچوں کے لئے مناسب نہیں ہے۔ کونسل نے چینل کو شو کے لئے بہتر میٹر چننے کی رائے بھی دی ہے۔ کونسل کو ملی شکایتوں کی کل تعداد 3341 رہی۔ ان میں سے1883 کو اس بنیاد پر خارج کردیا گیا کہ وہ کسی کام کی نہیں تھیں یا پھر محض تجویزوں پر مبنی تھیں جبکہ479 شکایتوں پر کونسل نے بحث کر ان پر کارروائی بھی کی۔ زیادہ تر شکایتیں ٹی وی پروگراموں میں بڑھ رہے جنسی ٹرینڈ کو لیکرتھیں۔ کونسل نے ان شکایتوں پر کارروائی کرتے ہوئے ان کو ایسے پروگرام دیر رات یا پھر نہ دکھانے کی ہدایت دی ہے۔کونسل اب ای میل کے ساتھ ساتھ خط کے ذریعے بھی شکایتیں وصول کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
ویسے تو کونسل کا کام ٹی وی پروگراموں سے وابستہ شکایتوں کو ہی دیکھنا ہے لیکن اسے نیوز چینلوں، اشتہاروں، فلموں سے وابستہ شکایتیں بھی ملی ہیں۔ اسی طرح براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن، ایڈورٹائزنگ اسٹنڈرڈ کونسل آف انڈیا اور سینسر بورڈ کو بھیج دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ اسے پریس کی آزادی پر حملہ و مداخلت کہہ سکتے ہیں لیکن یہ سینسر شپ نہیں۔ اگر سینسر شپ ہوتی تو ان کا ٹیلی کاسٹ ہی نہیں ہوتا۔ یہ کنٹرول ضروری ہے چین جیسے ملک میں بہت سی پابندیاں ہیں ۔ سوویت روس کے ٹوٹنے کی ایک وجہ امریکی ٹی وی چینل مانے جاتے ہیں۔ جیسا میں نے کہا کہ ہم امبیکا سونی جی کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس اہم سماجی کام پر توجہ دی۔ اس پر لگام لگانے کی کوشش کی ہے۔
Ambica Soni, Anil Narendra, Daily Pratap, Rakhi Sawant, Reality show, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟