لوکپال بل پر ٹکراؤ کا پورا امکان ہے


Published On 23rd December 2011
انل نریندر
حکومت اور انا ہزارے کا ٹکراؤ اب ہونا یقینی ہے۔ کیونکہ حکومت نے واضح کردیا ہے کہ نہ تو اسے ٹیم انا سے کوئی ڈر ہے اور نہ ہی اب وہ اس کے سامنے جھکنے کو تیار ہے۔ وہ ٹیم انا سے لمبی لڑائی لڑنے کو بھی تیار ہے۔ یہ وارننگ کانگریس صدر سونیا گاندھی بھی دے کر میدان میں آگئی ہیں۔ انہوں نے معاملے میں پوری کمان سنبھال لی ہے۔ سونیا گاندھی نے لوکپال کو بنیاد بناتے ہوئے انا ہزارے اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو سیدھا چیلنج کردیا ہے کہ سرکاری لوکپال بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب انا اور اپوزیشن کو مان لینا چاہئے اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کانگریس پانچ ریاستوں کے آنے والے چناؤ میں ان دونوں کی چنوتیوں سے نمٹنے اور لمبی لڑائی کے لئے تیار ہے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں جارحانہ تیور دکھاتے ہوئے سونیا گاندھی نے پہلی بار لوکپال پر اپنے نظریات رکھے۔ حکومت اور تنظیم کے درمیان کسی بھی اختلافات کو درکنار کرتے ہوئے صاف کہا یہ بل بہت اچھا بنا ہے اور اسے پاس کرانے میں اپوزیشن کو اڑچن نہیں پیدا کرنی چاہئے اور انا ہزارے کو بھی قبول کرلینا چاہئے۔ لیکن انا ہزارے کو موجودہ شکل میں لوکپال بل منظور نہیں ہے۔ سب سے بڑا اختلاف سی بی آئی اور گروپ سی کے افسر شاہوں کو لوکپال کے دائرے سے باہر رکھنے کو لیکر ہے۔ انا نے اپنی مہم تیز کرتے ہوئے کہا کہ سی بی آئی کو لوکپال کے دائرے سے باہررکھنے کیلئے سرکار کی منشانیتاؤں کو بچانے کی ہے۔ اگر سی بی آئی لوکپال سے باہر رہے گی تو لوکپال کیسے مضبوط ہوگا؟اگر سی بی آئی لوکپال کے ماتحت آجاتی ہے تو وزیرداخلہ پی چدمبرم جیل کے اندر ہوں گے۔ آپ کرپٹ نیتاؤں کو بچا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ مضبوط لوکپال ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ سرکار لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ جنتا اسے سبق سکھا دے گی۔ انا کا کہنا ہے اگلے سال اترپردیش اور دیگر چارریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے جارہے ہیں وہاں یوپی اے سرکار کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔ بل کو مسترد کرتے ہوئے انا نے کہا الگ سے سٹیزن چارٹر بل لانے کے لئے بھی سرکار نے جنتا کے مفادات کو نظرانداز کیا ہے۔
عام آدمی کو اپنی شکایت کے ازالے کے لئے مجوزہ مشینری کے تحت بے مطلب یہاں وہاں دوڑنا پڑے گا، یہ لوگوں سے دھوکہ ہے۔ ادھر سرکار نے منگلوار کو کرپشن پر روک لگانے کے لئے اپنی حکمت عملی کے تحت لوک سبھا میں سٹیزن چارٹر بل پیش کردیا۔ بل میں ہر شہری کو طے میعاد طریقے سے یکساں خدمات دستیاب تھیں ساتھ ساتھ شکایتوں کے ازالے کا بھی اختیار دیا گیا ہے۔ یعنی سرکاری محکموں میں کونسے کام کتنے دنوں میں ہوں گے ، اس کے لئے کون ذمہ دار ہے یہ پہلے سے بتانا ہوگا۔ ایسا نہ ہونے پرمتعلقہ افسر کے خلاف شکایت کی جاسکے گی۔ ہمیں نہیں لگتا لوک سبھا میں اسی اجلاس میں یہ بل پاس ہوسکے گا؟ کرسمس کی چھٹی کے بعد ایوان کی کارروائی 27،28 اور29 دسمبر تک بڑھانے کو لیکر ممبران میں بھاری اختلاف پایا جاتا ہے۔ کرسمس کے بعد ایوان چلنے کو لیکر خاص طور سے کیرل، اروناچل پردیش کے ممبران کا احتجاج اس لئے ہے کہ انہوں نے پہلے ہی سے سال کے آخر میں گھروالوں کے ساتھ چھٹی منانے اور دیگر پروگرام بنا رکھے ہیں۔ ان میں بیرونی ملک کے دورے بھی شامل ہیں۔
ادھر بھاجپا سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کا بھی لوکپال بل پر موقف واضح نہیں ہے۔لوکپال کی کئی شقوں پر اب بھی اتفاق رائے نہیں ہے۔سرکاری ترجمان کہہ رہے ہیں کہ صرف دو دن میں ہی لوکپال پاس ہوسکتا ہے بشرطیکہ اپوزیشن ساتھ دے اور پاس کرانے میں تعاون دے۔ لیکن سرکاری مسودے کو دیکھنے سے پہلے اپوزیشن خاص طور سے بھاجپا کوئی بھی یقین دہانی کرانے کو تیار نہیں تھی۔ دوسری اپوزیشن پارٹیاں بھی اپنے سخت تیور بنائے ہوئے ہیں ایسے میں23 دسمبر تک مفصل بحث کے بعد لوکپال بل پاس کرانا ممکن نہیں لگتا۔ اگر پارلیمنٹ میں بل کو لیکر اتفاق رائے نہیں بنا تو آگے کیا ہوگا؟ ممکن ہے کہ بل کو سلیکٹ کمیٹی کو سونپ دیا جائے۔ اس سے سبھی فریقین کا موقف درکار رہے گا۔
Anil Narendra, Anna Hazare, BJP, CBI, Daily Pratap, Lokpal Bill, P. Chidambaram, Sonia Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟