کسان اپنی فصل خود ضائع کریں یہ ہے میرا بھارت مہان


Published On 20th December 2011
انل نریندر
ہندوستان ایک زرعی کفیل ملک ہے اور ملک کی قریب70 فیصد عوام کھیتی پر منحصر ہے۔ اس نکتہ نظر سے زراعت اور کسان دیش کے لئے سب سے اہم ہونے چاہئیں۔ ہماری سبھی سیاسی پارٹیاں کسانوں کے لئے آنسو بہانے میں کبھی پیچھے نہیں رہیں۔ ان کو حقیقت میں کسانوں سے کتنی دلچسپی ہے اس کا نمونہ ہمیں پارلیمنٹ سے ملتا ہے۔ جمعرات کو راجیہ سبھا میں کسانوں کے بحران پر بحث ہورہی تھی۔ قارئین کو یہ جان کر تعجب و دکھ بھی ہوگا کہ بحث کے دوران راجیہ سبھا کے245 ممبران میں سے صرف قریب50 ممبران ہی موجودتھے۔ یہ ہی نہیں کئی ممبر اپنی بات کہنے کے بعد ایوان چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب عوامی اہمیت کے کسی مسئلے پر بحث میں اتنے کم ممبران ایوان میں موجود رہیں۔ جب اتنی معمولی موجودگی ہو تو بحث کا معیار کیا ہوگا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چونکانے والے حقائق یہ ہیں کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 1994 سے2010 تک یعنی 16 برسوں میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں خودکشی کا یہ سلسلہ تیزی سے بڑھا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسانوں کی حالت گذشتہ برسوں میں زیادہ خراب ہوئی ہے۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ مرکزی وزیر زراعت شرد پوار کی آبائی ریاست مہاراشٹر اس معاملے میں سب سے اول ہے۔ آج زراعت کی یہ حالت ہے کہ کسان اپنی فصلیں خود ضائع کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ آلو کی پیداوار کرنے والے کسانوں نے جمعرات کو پنجاب کے کئی شہروں میں اپنی آلو کی فصل کو سڑک پر بکھیر دیا۔ حالانکہ پولیس و انتظامیہ نے 200 ٹرالی الٹنے سے روک لیا۔ پھر بھی ناراض آلو کسانوں نے 45 ٹرالی سڑکوں پر الٹ دیں۔ اس وقت ہریانہ، پنجاب میں آلو کی اتنی درگتی ہورہی ہے کہ کسان انہیں مفت میں دے رہے ہیں۔ 50 کلو کی ایک بوری کی قیمت محض30 سے40 روپے رہ گئی ہے۔ کسان بیج کے لئے کولڈ اسٹوریج میں رکھے آلو تک نہیں اٹھا رہے ہیں۔ کسانوں کے ذریعے آلو کی فصل کو سڑکوں پر پھینکنے جانے کے سبب امرتسر میں قریب دو گھنٹے تک ٹریفک جام رہا۔ جالندھر آلو پروڈیکٹ ایسوسی ایشن و آل کسان یونین نے دو دن پہلے حکومت کو اس معاملے میں کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر ان کی بات نہیں سنی گئی تو وہ آلو کی فصل کو سڑکوں پر بکھیر دیں گے اور اپنی ناراضگی ظاہر کریں گے۔ ایسوسی ایشن کے صدر نے بتایا کہ اس وقت قریب 20 لاکھ کوئنٹل آلو کولڈ اسٹوریج میں پڑا ہوا ہے۔ جالندھر کے علاوہ راجستھان، چنڈی گڑھ سے ملحق پنجاب کے موہالی میں بھی کسانوں نے آلو کو سڑکوں پر ڈال کر سرکار کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کی۔ بدقسمتی دیکھئے جمعرات کو جس آلو کی تھوک قیمت80 پیسے کلو رہی ،کیرل کی منڈی میں وہی آلو18 روپے کے بھاؤ پر بکا، راجدھانی دہلی میں یہ 10-12 روپے کلو بک رہا ہے۔ یہ بازار کی اور ہمارے سرکاری سسٹم کی پول کھولنے کی اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری ساری کوشش کے باوجود، ہماری ساری اسکیموں کے باوجود کسان کو اس کی پیداوار کی مناسب قیمت نہیں مل پاتی۔ کسان خودکشی کرنے پر اور اپنی فصل کو ضائع کرنے پر مجبور ہورہے ہیں اور صارفین بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ کسانوں کی خودکشی کے اعدادو شمار چونکانے والے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری زراعت گہرے بحرانی دور سے گذر رہی ہے۔ جب کسی وجہ سے فصل چوپٹ ہوتی ہے تب تو کسان مصیبت میں ہوتا ہی ہے جب پیدوار اچھی ہوتی ہے تب بھی پیداوار کے واجب دام نہ مل پانے کے سبب پریشانی کھڑی ہوجاتی ہے اور وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کسانوں کی پریشانی کے پیش نظر سوامی ناتھن کمیشن نے کئی اہم سفارشیں کی تھیں لیکن انہیں آج تک نافذ نہیں کیا گیا۔ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے اور سبھی پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ وہپ جاری کریں تاکہ بحث کے دوران سارے ایم پی موجود ہوں۔ یاد رہے دیش کی اصلی ترقی تبھی ہوگی جب ہمارے کسانوں کی ترقی ہوگی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Farmers Agitation, Farmers Suicide, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!