ایک کمیونسٹ تاناشاہ کی موت


Published On 23rd December 2011
انل نریندر
دنیا میں ایک اور تاناشاہ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ نارتھ کوریا کے 69 سالہ سپریم لیڈر اور ورکرس پارٹی آف کوریا کے چیف کم جونگ ال کا انتقال ہوگیا۔ کم جونگ ال کا انتقال تو13 دسمبر کوہوا تھا لیکن سرکاری طور پر اعلان دو دن بعد ہوا۔ کسی دیش کا نیتا جب دنیا کو الوداع کہتا ہے تو اکثر غم کا ماحول بن جاتا ہے لیکن تاناشاہوں کے معاملوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ ان کے جانے سے دنیا راحت کی سانس لیتی ہے۔ کم جونگ کے بارے میں بھی ایسا ہی خیال پایا جاتا ہے۔ جاپان نے تو اس کے انتقال کی خبر سننے کے بعد باقاعدہ سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بلائی اور پورے دیش سے کسی بھی حالات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کو کہا گیا۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے راحت کی سانس لی۔ نارتھ کوریا کا ایک واحد دوست چین بھی فکرمند ہے چونکہ پیوگ ینگ کے اقتدار میں کوئی تبدیلی اس کے ان تجزیوں کو بگاڑ سکتی ہے جس کے بھروسے چین نے جاپان، ویتنام جیسے پڑوسیوں کے خلاف مورچہ کھولا ہواہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کم جونگ ال کے عہد میں نارتھ کوریا ایک نیوکلیائی طاقت کی شکل میں ابھرا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ انہیں کے عہد میں نارتھ کوریا نے تاریخ کی سب سے بڑی ٹریجڈی کو بھی جھیلا جس میں لاکھوں لوگ بھوک سے بے موت مارے گئے تھے۔ نارتھ کوریا ویسے تو ایک سماجوادی ملک مانا جاتا تھا لیکن اگر غور سے دیکھیں تو وہ کسی دھارمک کلچر جیسا لگتا ہے جہاں ایک شخص اور اس کا خاندان دیش کی علامت بن جاتا ہے۔ 1994ء میں والد کی موت کے بعد وہ آسانی سے اپنے دیش کے سپریم لیڈر بن گئے۔ تب لگتا تھا کہ وہ زیادہ دن حکومت نہیں چلا پائیں گے۔ مغربی سیاسی ماہرین دراصل موجودہ حکمراں کم یونگ کی ناتجربہ کاری اور خاندان کے دوسرے ممبران سے انہیں ملنے والی چنوتیوں کے اندیشات کے سبب ان نتیجوں پر پہنچے تھے لیکن تب سے ان کا ایک واحد عہد نارتھ کوریا میں چل رہا ہے۔ والد نے دیش کو جس لوہے کی دیوار میں قید کردیا تھا بیٹے نے اسے اور مضبوط بنایا۔ کم جونگ ال رنگین مزاج کے تاناشاہ تھے۔ جونگ نے دو ہزار لڑکیوں کی بھرتی کی تھی۔ انہیں پلیجر گروپوں میں رکھا گیا تھا۔ ایک سے ایک سیکسول سروسوں کے لئے دوسرا مساج اور تیسری ڈانسنگ اور پھر سنگنگ کے لئے ۔جونگ سے ملنے آنے والوں کی تواضع کیا کرتی تھیں۔ جونگ سنیما کے بھی جنونی تھے۔1978 ء میں انہوں نے جنوبی کوریا ئی مقبول فلم ڈائریکٹر شم سانگ آ کے اور اس کی ایکٹریس کو اغوا کروایا۔ دونوں کو پیونگ یانگ لایا گیا جہاں انہیں پانچ سال تک قید رکھا گیا۔ دونوں کو اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ نارتھ کوریائی فلم صنعت کے فروغ کے لئے مدد کریں گے۔
نیوکلیائی ہتھیار اکٹھا کرنے کی کوشش میں بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ پڑے کم جونگ نے اپنی حرکتوں سے مغربی ملکوں کی ناک میں دم کررکھا تھا۔ سرد جنگ کے بعد اپنا وجود بنائے رکھنے والا نارتھ کوریا اکیلا پرانے ڈھنگ کا کمیونسٹ ملک ہے۔ وہاں کے سیاسی ڈھانچے نے بھی ابھی نیا چولا نہیں پہنا ہے۔ کام کا ج کا خفیہ طریقہ بھی پرانے دور کا ہے۔ حالانکہ کم جونگ کے جانشین 28 سالہ کم جونگ وون کو چنوتی دینے کی کوئی خبر نہیں ہے لیکن نارتھ کوریا میں کسی بھی طرح کی ہلچل چین، جنوبی کوریا، جاپان، امریکہ اور بھارت کے لئے اہم ہوگی۔ نئے حکمراں کی نیوکلیائی پالیسی جنوبی کوریا جاپان ، امریکہ کے لئے تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارت کی چنتا کوریا کی پاکستان کے ساتھ نیوکلیائی میزائل رشتے کو لیکر ہوگی۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے عہد میں یہ رشتہ پروان چڑھا تھا۔ تب سے جاری ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر میزائلیں نارتھ کوریائی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کم جونگ وون اس رشتے کو آگے قائم رکھتے ہیں یا اس سے آگے کوئی رشتہ بنائیں گے۔ امکان ہے کہ اگر کم جونگ وون نئے حکمراں کی شکل میں محفوظ محسوس کرتے ہیں تو کیا وہ اپنے والد کی ہی پالیسیوں کے مطابق چین سے قریبی رشتے رکھیں گے اور نیوکلیائی مسئلے پر فوج اور پاکستان کی امیدوں کے مطابق کام کریں گے لیکن یہ سب کچھ منحصرکرتا ہے نارتھ کوریا کے اقتدار میں ان کی پکڑ کتنی مضبوط ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, kim jong il, Pakistan, South Korea, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟