سونیا گاندھی کا ڈریم پروجیکٹ غذائی سکیورٹی بل



Published On 22nd December 2011
انل نریندر
کانگریس صدر سونیا گاندھی کا ایک ڈریم پروجیکٹ حقیقت بننے جارہا ہے۔ سونیا گاندھی کے ویٹو سے غذائی سکیورٹی بل کو مرکزی کیبنٹ نے منظور کرلیا ہے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں ہوئی کیبنٹ کی میٹنگ میں اس بل پر زیادہ بحث نہیں ہوئی۔ اس بل کو لیکر پوری حکومت پر اتنا زیادہ دباؤ تھا کہ میٹنگ میں اس پر آناً فاناً میں مہر لگ گئی۔ وزیر خوراک شرد پوار اور دوسری ساتھی پارٹیوں کی تشویشات کو بھی یوپی اے صدر کا ''ڈریم'' بتاتے ہوئے اسے اب نہ روکنے کے لئے منموہن سنگھ نے سبھی ساتھیوں کو منالیا۔ ہم سونیا جی کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔دیش میں تقریباً47 فیصدی بچے بھکمری کا شکار ہیں اور ہر سال ہزاروں لوگوں کی بھکمری اور غذا کی قلت کی وجہ سے موت ہوجاتی ہے۔ پچھلے دنوں آئی اقوام متحدہ کی انسانی فروغ رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں فی شخص آمدنی تو بڑھی ہے مگر اسی کے ساتھ بھوکے لوگوں کی بھی تعداد بڑھی ہے۔ اس سنگین مسئلے کے پیش نظر اگر حکومت نے دیش کے تقریباً 63.5فیصدی آبادی یعنی گاؤں اور شہر کے تقریباً80 کروڑ غریب لوگوں کو کھانے کا بنیادی حق دلانے والا قانون بنانے کی سمت میں پہل کرتے ہوئے اس غذائی سکیورٹی بل کو منظوری دی ہے تو اس کو ایک فلاحی قدم کے طور پر مانا جائے گا۔ اس کا اس حد تک خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن نیک ارادے رکھنا اور انہیں حقیقت میں بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنا روپیہ آئے گا کہاں سے؟ اس قانون کے نافذ کرنے میں سرکار پر پہلے سال میں 95 ہزار کروڑ روپے کی سبسڈی کا بوجھ آئے گااور یہ تیسرے سال تک ڈیڑھ لاکھ کروڑ ہوجائے گا۔حال میں سرکار31 ہزار کروڑ روپے غذائی سبسڈی پر خرچ کررہی ہے۔ اس کے علاوہ تیسرے سال میں دیش کی زرعی پیداوار کے ذخیروں کے لئے گودام بنانے کیلئے 50 ہزار کروڑ روپے کی مزید رقم کی ضرورت ہوگی۔ ہمارے موجودہ سسٹم میں ہمارے پاس اتنے گودام نہیں کہ گیہوں اور سبزی کے ذخیروں کو محفوظ رکھا جائے۔ کسان اپنی فصل ضائع کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ ویسے بھی دیہات میں ہر شخص کو دو وقت کی روٹی روزی مل ہی جاتی ہے۔ ایک حقیقت ہمارے دیش کی یہ بھی ہے کہ سرکار کے ذریعے چلائی جارہی کسی بھی اسکیم فائدہ اس صارفین تک نہیں پہنچتا جس کے لئے یہ لاگو کی گئی ہیں۔ تباہ کن راشن سسٹم پر غذائی سکیورٹی بل کا بوجھ ڈالنے کا کہیں یہ مطلب نہ نکلے کہ غذائی سبسڈی میں لوٹ مار دوگنی ہوجائے؟ سرکار اسی بیمار راشننگ سسٹم کے بھروسے دیش کی تین چوتھائی عوام کو کفایتی دام پر اناج باٹنے کی اسکیم اتنی آسان نہیں ہوگی کہ اناج کی یہ لوٹ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے گوداموں سے لیکر راشن کی دوکانوں تک ہوتی ہے۔
راشن سسٹم میں فی الحال 35 کروڑ لوگوں کو سستا اناج چاول تقسیم کیا جاتا ہے؟ مجوزہ بل میں اب 80 کروڑ لوگوں کو راشن دینے کی سہولت رکھی گئی ہے ظاہر ہے کہ موجودہ راشن سسٹم کیلئے یہ بڑا بوجھ ہوگا۔ اس کے باوجود سرکار نے راشن سسٹم میں قابل غور اصلاحات کرنے پر زور نہیں دیا۔ جب تک پبلک سسٹم کو چست درست نہیں کیا جاتا ہمیں نہیں لگتا سونیا جی اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں گی۔ یہ کم تعجب کی بات نہیں کہ جب سرکار اور اپوزیشن ٹیم انا کے درمیان لوک پال بل کو لیکر ہونے والی کھینچ تان کے شورو غل میں دیش ڈوبا تھا تب کانگریس صدر سونیا گاندھی اپنے غذائی سکیورٹی بل کو لیکر سب سے زیادہ سنجیدہ تھیں۔ کیا یہ اس لئے لایا گیا ہے کہ لوکپال سے بڑی لکیر کھینچی جاسکے یا پھر اس لئے لایا گیا ہے کہ اترپردیش کے سیاسی دنگل میں راہل کو غذائی سکیورٹی بل کا ہتھیار مہیا کرایا جائے ۔تاکہ آنے والے اسمبلی چناؤ میں کانگریس پارٹی کو اس کا سیاسی فائدہ مل سکے؟
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Food Security Bill, Manmohan Singh, Sonia Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟