اور اب مسلم ریزرویشن کاپتاّ


Published On 24th December 2011
انل نریندر
مرکزی کیبنٹ نے جمعرات کو اقلیتوں کے لئے ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دیکر مسلمانوں میں کارڈ کھیل دیا ہے۔ اب پسماندہ طبقوں کے لئے مقرر 27 فیصدی ریزرویشن میں سے یہ ساڑھے چار فیصدی حصہ اقلیتوں کے لئے ہوگا۔ اسے آنے والے اسمبلی چناؤ میں کانگریس کا مینڈیٹ بڑھنے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔بدعنوانی، لوکپال ، بلیک منی جیسے برننگ اشوز سے گھری یوپی اے حکومت نے اپوزیشن میں تقسیم اور دیش کی توجہ پیچیدہ مسائل سے ہٹانے کیلئے یہ قدم اٹھایالگتا ہے۔ جمعرات کو غذا کا حق دینے والے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے والی منموہن سنگھ حکومت نے شام کو ہی تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں اقلیتوں کو ریزرویشن کاتحفہ دے کر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ کچھ برس پہلے رنگناتھ مشر کمیشن نے مسلمانوں کی حالت کو بہتر کرنے کیلئے ریزرویشن کی سفارش کی تھی لیکن آئین مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے پسماندہ طبقوں کی فہرست میں اقلیتوں کو ریزرویشن دے کر مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کتنی کارگر ہوگی یہ تو مستقبل ہی بتائے گا۔ سیاسی مجبوریوں کے چلتے حکومت نے مسلم ریزرویشن بیشک کردیا ہے یا کرنے کی نیت صاف کردی ہے لیکن سپریم کورٹ میں یہ معاملہ ٹھہرپاتا ہے یا نہیں؟ سپریم کورٹ دس سال پہلے اترپردیش کی اس وقت کی بھاجپا سرکار کی ایسی پہل پر روک لگا چکی ہے۔
اترپردیش کے وزیر اعلی رہنے کے دوران راجناتھ سنگھ نے پچھڑے طبقوں کو27 فیصدی کوٹے سے ہی انتہائی پسماندہ طبقوں کو الگ سے ریزرویشن کے لئے سماجی انصاف کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی کی ہی سفارش پر اترپردیش حکومت نے اسمبلی سے پاس یوپی لوک سیوا (درجہ فہرست ذاتوں و شیڈول قبائل ریزرویشن) ترمیم ایکٹ 2001 ء لاگو تو کردیا لیکن اسی حکومت کے وزیر سیاحت رہے اشوک یادو نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جبکہ کچھ دیگر تنظیمیں بھی سرکار کے خلاف سپریم کورٹ گئی تھیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے راجناتھ سنگھ سرکار کے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ اس درمیان پسماندہ طبقوں کے ہی کوٹے سے مسلمانوں کو ریزرویشن کی پہل پر یادو نے کہا کیونکہ کوٹے کے اندر ایک اور کوٹے پر سپریم کورٹ 10 سال پہلے روک لگا چکا ہے۔ ایسے میں مرکزی حکومت مسلم ریزرویشن کو لیکر اگر واقعی سنجیدہ ہے تو آئین میں ترمیم لائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ الگ الگ پارٹیوں کی رہنمائی کرنے والے پسماندہ طبقوں کے کئی نیتا جن میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ پسماندہ طبقے کے کوٹے سے مسلم ریزرویشن کے خلاف ہیں۔ لیکن مسلم کوٹے کے چلتے وہ کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے۔ سیاسی پارٹیاں صرف ایسا اس لئے کررہی ہیں کیونکہ وہ آنے والے چناؤ میں مسلم فرقے کے تھوک میں ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم ریزرویشن کی وکالت کرنے والی پارٹیوں کے پاس اس سوال کا شاید ہی کوئی جواب ہو کے انہیں ابھی تک اس فرقے کی پسماندگی کیوں نہیں نظر آئی؟ کیا ریزرویشن سے مسلم فرقے کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ ہمارے مسلمان بھائیوں کی ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ اتنے برسوں بعد بھی انہیں صحیح لیڈر شپ نہیں مل سکی۔ جو نیتا خود کو ان کا ہتیشی بتاتے ہیں ان کی دلچسپی صرف ان کے ووٹ لینے میں ہے یہ ایک سچائی ہے۔ مسلم فرقہ پسماندگی سے دوچار ہے لیکن اس بنیاد پراسے قومی دھارا سے باہر قراردینا اور اسے جان بوجھ کر ایک دائرے میں محدود کرنا ہے۔
تعلیم کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پچھلے دنوں ایک کانفرنس ہوئی تھی اس میں بتایا گیا کہ دہلی کے اسکولوں میں سینکڑوں ٹیچروں کی اسامیاں خالی ہیں۔ انہیں بھرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ سچر کمیٹی کی سفارشیں بھی مسلم فرقے کا معیار بڑھا سکتی ہیں۔ لیکن افسوس سے کہا جائے گا کہ اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ جب تک مسلم سماج میں تعلیم نہیں بڑھائی جاتی تو اس کی فلاح مشکل ہوتی لگ رہی ہے۔ ضرورت تو آج اس کی ہے کہ ایسا کوئی سسٹم بنائیں جس میں ہندوستانی سماج کے جو محروم غریب ہیں ان سبھی کی بھلائی ہو۔کسی بھی ذات یا فرقے یا سیکٹر یا کسی بھی مذہب کے ہوں؟
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Minority, Muslim Reservation, Rangnath Misra, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!