ایک بار پھر بھاجپا ہوئی بے نقاب
مہنگائی اور بدعنوانی جیسے برننگ اشوز پر یہ سرکار اور یہ پارلیمنٹ کتنی سنجیدہ ہے یہ ہمیں پچھلے دو دن میں لوک سبھا کے اندر چھائے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ حکمراں اور اپوزیشن کے بیچ یہ نورا کشتی بھارت کی جنتا کو بیوقوف بنانے کیلئے محض ایک ڈرامہ تھا۔ دراصل صاف ہے کہ کانگریس پارٹی اور بڑی اپوزیشن پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی میں ایک خفیہ سمجھوتہ ہوگیا تھا۔ اس سمجھوتے کے تحت بھاجپا سے سرکار نے یقین دہانی لی تھی کہ آپ تقریر کریں گے ۔ بس اس سے کچھ زیادہ نہیں۔ آخر میں ایک ریزولوشن پاس کردیا جائے گا جس میں مہنگائی پر گہری تشویش جتائی جائے گی اور یقین دہانی کرائی جائے گی کہ سرکار اس سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ ہے اور ہوا بھی یہی، تقریروں کے بعد بڑھتی مہنگائی پر ممبران پارلیمنٹ کی تشویش سے اتفاق کرتے ہوئے حکومت نے کہا کہ وہ اسے قابو کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ ایوان میں بعد میں اس سلسلے میں پیش پرستاؤ کو بابلند آواز سے پاس کردیا گیا۔ اس پرستاؤ میں قیمتوں میں اضافے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے افراط زر کو روکنے کے لئے فوری موثر قدم اٹھانے کی اپیل کی گئی تاکہ عام آدمی کو راحت مل سکے۔
ووٹ تقسیم سے پہلے سپا، بسپا اور آر جے ڈی کے ممبر وزیر مالیات کے جواب سے مطمئن نہ ہونے کا بہانہ بنا کر ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ اس کے بعد ایوان نے کمیونسٹ پارٹی کے گورو داس داس گپتا کی جانب سے پرستاؤ میں پیش ایک ترمیم کو 51 کے مقابلے 320 ووٹوں سے نامنظور کردیا۔ جس پر لیفٹ پارٹیاں انا ڈی ایم کے اور بیجو جنتا دل کے ممبربھی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے صرف لیفٹ پارٹی کے ہی ممبر تھے تو چاہتے تھے کہ ریزولوشن میں مہنگائی روکنے میں سرکار کی ناکامی کے لئے مذمت کی جائے لیکن بھاجپا کو ایسا کرنا ضروری نہیں لگا۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے پہلے بڑی بڑی دھمکیاں دینے والی بھاجپا ایک بار پھر بے نقاب ہوگئی اور بھاجپا کے ذریعے اپنائے گئے رویئے عام جنتا اپنے آپ کو ٹھگا محسوس کررہی ہے۔ مہنگائی پر سرکار کو پانی پی پی کر کوسنے والی بھاجپا نے پارلیمنٹ میں سرکار کو مہنگائی کے معاملے میں گھیرنے کے لئے ووٹ کے تقاضے والے قاعدے184 کے تحت لوک سبھا میں بحث کی مانگ کی۔ حکومت نے تھوڑا ہاں نہ کے بعد اس مانگ کو مان لیا۔ اب باری اپوزیشن کی تھی، وہ پوری طاقت اور دلائل کے ساتھ حکومت کو پارلیمنٹ میں گھیرتی لیکن بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا اپنی ذمہ داری کو پوری کرنے میں بحث کے پہلے دن ہی پوری طرح ناکام رہی۔ وہیں رہی سہی کسر اس نے دوسرے دن پوری کردی۔ پارلیمانی قواعد کے تحت اگر کوئی بحث قاعدہ184 کے تحت کرائی جاتی ہے تو بحث کے آخر میں کسی بھی ایک ایم پی کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ووٹ کی تقسیم کی باقاعدہ مانگ کرے لیکن بھاجپا نے جہاں پہلے دن سے ہی نہ تو مہنگائی کے مسئلے پر سرکار کو گھیرنے میں دلچسپی دکھائی اور نہ ہی بحث کے آخر میں کراس ووٹنگ کی مانگ کی۔ آئین کے مطابق اگر قاعدہ184 کے تحت کسی بحث میں حکمراں فریق کو منہ کی کھانی پڑتی ہے تو اس پر اخلاقی دباؤ بنتا ہے اور اخلاقی بنیاد پر اس سرکار کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں بچتا۔ بھاجپا نے کراس ووٹنگ کی مانگ نہ کرکے ایک طرح سے اس سرکار کو بنے رہنے کا کام کیا ہے اور یہ سب اس خفیہ سمجھوتے کے تحت کیا گیا ہے جو کانگریس پارٹی کے حکمت عملی سازوں نے بھاجپا کے نیتاؤں سے کی تھی۔ اگر بھاجپا چاہتی تھی وہ اس موقعے پر لیفٹ پارٹیوں اور دیگر چھوٹی پارٹیوں سے مل کر ان کی حمایت کافائدہ اٹھاتے ہوئے اگر کراس ووٹنگ کی مانگ کرتی تو کافی امکان یہ بنتا کہ سرکار دباؤمیں کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کو مجبور ہوتی جس کا سیدھا فائدہ عام جنتا کو ملتا۔
آخر کار اس کا فائدہ اپوزیشن پارٹیوں کو ہی ملتا ہے۔ ایسے میں جب بھاجپا بار بار لوگوں کے سامنے کانگریس کے متبادل کی شکل میں ابھرنا چاہتی ہے تو اس کے ذریعے پارلیمنٹ میں اپنایا گیا رویہ اس کی توقعات پر ایک طرح کا دھکا لگنا ثابت ہو سکتا ہے۔
ووٹ تقسیم سے پہلے سپا، بسپا اور آر جے ڈی کے ممبر وزیر مالیات کے جواب سے مطمئن نہ ہونے کا بہانہ بنا کر ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ اس کے بعد ایوان نے کمیونسٹ پارٹی کے گورو داس داس گپتا کی جانب سے پرستاؤ میں پیش ایک ترمیم کو 51 کے مقابلے 320 ووٹوں سے نامنظور کردیا۔ جس پر لیفٹ پارٹیاں انا ڈی ایم کے اور بیجو جنتا دل کے ممبربھی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے صرف لیفٹ پارٹی کے ہی ممبر تھے تو چاہتے تھے کہ ریزولوشن میں مہنگائی روکنے میں سرکار کی ناکامی کے لئے مذمت کی جائے لیکن بھاجپا کو ایسا کرنا ضروری نہیں لگا۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے پہلے بڑی بڑی دھمکیاں دینے والی بھاجپا ایک بار پھر بے نقاب ہوگئی اور بھاجپا کے ذریعے اپنائے گئے رویئے عام جنتا اپنے آپ کو ٹھگا محسوس کررہی ہے۔ مہنگائی پر سرکار کو پانی پی پی کر کوسنے والی بھاجپا نے پارلیمنٹ میں سرکار کو مہنگائی کے معاملے میں گھیرنے کے لئے ووٹ کے تقاضے والے قاعدے184 کے تحت لوک سبھا میں بحث کی مانگ کی۔ حکومت نے تھوڑا ہاں نہ کے بعد اس مانگ کو مان لیا۔ اب باری اپوزیشن کی تھی، وہ پوری طاقت اور دلائل کے ساتھ حکومت کو پارلیمنٹ میں گھیرتی لیکن بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا اپنی ذمہ داری کو پوری کرنے میں بحث کے پہلے دن ہی پوری طرح ناکام رہی۔ وہیں رہی سہی کسر اس نے دوسرے دن پوری کردی۔ پارلیمانی قواعد کے تحت اگر کوئی بحث قاعدہ184 کے تحت کرائی جاتی ہے تو بحث کے آخر میں کسی بھی ایک ایم پی کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ووٹ کی تقسیم کی باقاعدہ مانگ کرے لیکن بھاجپا نے جہاں پہلے دن سے ہی نہ تو مہنگائی کے مسئلے پر سرکار کو گھیرنے میں دلچسپی دکھائی اور نہ ہی بحث کے آخر میں کراس ووٹنگ کی مانگ کی۔ آئین کے مطابق اگر قاعدہ184 کے تحت کسی بحث میں حکمراں فریق کو منہ کی کھانی پڑتی ہے تو اس پر اخلاقی دباؤ بنتا ہے اور اخلاقی بنیاد پر اس سرکار کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں بچتا۔ بھاجپا نے کراس ووٹنگ کی مانگ نہ کرکے ایک طرح سے اس سرکار کو بنے رہنے کا کام کیا ہے اور یہ سب اس خفیہ سمجھوتے کے تحت کیا گیا ہے جو کانگریس پارٹی کے حکمت عملی سازوں نے بھاجپا کے نیتاؤں سے کی تھی۔ اگر بھاجپا چاہتی تھی وہ اس موقعے پر لیفٹ پارٹیوں اور دیگر چھوٹی پارٹیوں سے مل کر ان کی حمایت کافائدہ اٹھاتے ہوئے اگر کراس ووٹنگ کی مانگ کرتی تو کافی امکان یہ بنتا کہ سرکار دباؤمیں کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کو مجبور ہوتی جس کا سیدھا فائدہ عام جنتا کو ملتا۔
آخر کار اس کا فائدہ اپوزیشن پارٹیوں کو ہی ملتا ہے۔ ایسے میں جب بھاجپا بار بار لوگوں کے سامنے کانگریس کے متبادل کی شکل میں ابھرنا چاہتی ہے تو اس کے ذریعے پارلیمنٹ میں اپنایا گیا رویہ اس کی توقعات پر ایک طرح کا دھکا لگنا ثابت ہو سکتا ہے۔
Tags: Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Parliament, Price Rise, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں