ووٹنگ قاعدے کے تحت بحث کا جوا

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 4th August 2011
انل نریندر
یسا کہ امید تھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے پارلیمنٹ میں یوپی اے حکومت پر ہلا بول دیا ہے۔ اور بدعنوانی و مہنگائی کے مسئلے پر مرکز میں حکمراں کانگریس لیڈر شپ والی یوپی اے سرکار کو گھیرنے میں لگی بھاجپا نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو چاروں طرف سے گھیرنے کا پورا پلان بنا لیا ہے۔ بھاجپا نے ان پر مانسون اجلاس کا ماحول خراب کرنے کا بھی الزام لگا دیا ہے۔ بھاجپا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے ہی پہل کرتے ہوئے اپوزیشن کے سلسلے میں جو غیر ضروری بیان دیا ہے اس کے پیچھے اس کا واحد مقصد اپوزیشن کو مشتعل کرنا اور پارلیمنٹ کا ماحول خراب کرنا لگتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی نے منموہن سنگھ اور پی چدمبرم پر تلخ حملے کئے۔ جیٹلی کا کہنا ہے اسپیکٹرم الاٹمنٹ کے معاملے میں سابق وزیر مواصلات اے راجہ اور وزیر اعظم منموہن سنگھ و ان کے دفتر کے درمیان 18 مرتبہ خط و کتابت ہوئی ۔ اس خط و کتابت کے ذریعے راجہ نے وزیر اعظم کو اسپیکٹرم معاملے میں اپنی وزارت کے فیصلے اور پالیسی سے پوری طرح واقف کرایا تھا۔ اس لئے وزیر اعظم یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے کہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ سشما سوراج نے وزیر اعظم پر پارلیمنٹ کا ماحول خراب کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ این ڈی اے پارلیمنٹ میں مہنگائی اور بدعنوانی کے مسئلوں پر ووٹنگ کرانے والے قواعد کے تحت بحث کرانے کا نوٹس دے گی۔ سشما نے کہا کہ این ڈی اے بدعنوانی اور مہنگائی کے مسئلوں پر لوک سبھا میں قاعدہ 184 اور راجیہ سبھا میں قاعدہ167 کے تحت نوٹس دے گی۔
بدعنوانی اور مہنگائی کے مسئلوں پر کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت کو پارلیمنٹ میں گھیرنے کے لئے بھاجپا اور اس کی لیڈر شپ والے این ڈی اے نے ووٹنگ قاعدے کے تحت بحث کرانے کی تجویز لوک سبھا سکریٹریٹ کو بھیج دی ہے۔ بھاجپا چاہتی ہے کہ بدعنوانی اور مہنگائی کے مسئلے پر ایوان میں صرف بحث ہی نہیں بلکہ ووٹنگ بھی کرائی جائے تاکہ ان مسئلوں پر یہ صاف ہوسکے کہ کون سرکار کے ساتھ ہے اور کون سرکار کے خلاف ہے۔ یہ داؤ چل کر بھاجپا کانگریس کے ساتھ اس کی اتحادیوں کو بھی بے نقاب کرنا چاہتی ہے۔ بھاجپا کا تجزیہ ہے کہ بدعنوانی اور مہنگائی کے مسئلوں پر ووٹنگ ہوئی تو یوپی اے سرکار پھنس سکتی ہے۔ حکومت کو باہر سے حمایت دینے والی سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا ان مسئلوں پر نظریہ صاف ہے۔ سپا کے رام گوپال یادو نے کہا کہ بدعنوانی پر اب حکومت بھاگ نہیں سکتی۔ اسے پارلیمنٹ کا سامنا کرنا ہوگا اور دیش کی عوام کے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ بسپا کی جانب سے مورچہ ستیش مشرا نے سنبھالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی سب سے بڑا اشو ہے اس کے خلاف ان کی پارٹی پائیدار لوک پال سے کم راضی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انا ڈی ایم کے، بیجو جنتا دل، راشٹریہ جنتادل اور جنتا دل سیکولر اور لوکدل جیسی چھوٹی موٹی پارٹیوں نے بھی اپنے انداز میں حکومت کو آنکھیں دکھائی ہیں۔ کانگریس ممبر چپ چاپ سنتے اور دیکھتے رہے۔ مجبوراً ایوان کے پہلے دن چیئرمین کو ایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ کو دیکھتے ہوئے بھاجپا مہنگائی اور بدعنوانی پر کانگریس سپا اور بسپا کے اتحاد کو پھر سے اجاگر کرنا چاہتی ہے ۔ سپا اور بسپا نے اگر کانگریس کو حمایت دی تو بھاجپا ۔سپا ،بسپا اور کانگریس اتحاد کو اشو بنائے گی۔ اگر سپا اور بسپا نے ووٹنگ کے وقت کانگریس کا ساتھ نہیں دیا اور یوپی اے پارٹیوں نے بھی الگ الگ سر اور تیور دکھائے تب ایسے میں یوپی اے حکومت کی فضیحت ہوسکتی ہے۔ لیفٹ پارٹیوں کا موقف پہلے ہی واضح ہے کہ وہ سرکار کی جم کر مخالفت کریں گے۔ بھاجپا نے ان ساری باتوں کو بھی دھیان میں رکھ کر یہ داؤ چلا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ سرکار ووٹنگ والے قاعدے کے تحت کسی بھی بحث کو تیار ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اگر بھاجپا کی مانگ نہیں مانی گئی تو پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر یہ ہی سندیش دے گی کہ سرکار بدعنوانی اور مہنگائی کے مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہے، اس لئے صرف بحث کر اشو کو ٹال رہی ہے۔ بھاجپا کی جانب سے بدعنوانی پر قاعدہ184 کے تحت بحث کرانے کے لئے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی نے تجویز بھیجی تھی۔ مہنگائی پر بھاجپا نیتا یشونت سنہا اور این ڈی اے کے کارگذار کنوینر شرد یادو نے تجویز رکھی ہے۔ اب سرکار نے ووٹ قاعدے کے تحت بحث کرانا قبول کرلیا ہے۔ دیکھیں اس جوئے میں وہ کتنی کامیاب رہتی ہے؟ 
Tags: Anil Narendra, Arun Jaitli, BJP, Congress, Daily Pratap, Manmohan Singh, Parliament, Sushma Swaraj, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟