کانگریس پر یدی یروپا کی وداعی بھاری پڑسکتی ہے

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 31st July 2011
انل نریندر
 کرناٹک کے وزیر اعلی بی ایس یدی یروپا کے استعفے سے کانگریس نے بھلے ہی ظاہری طور پرخوشی کا اظہار کیا ہولیکن اندرونی طور پر اسے بھاری تشویش ضرور ہوگی۔ اب تک کانگریس کے اپنے کئی وزیر اور وزراء اعلی کو یدی یروپا کی آڑ میں بچا رکھا تھا اور انہی کے نام پر وہ اپنے گھوٹالوں کو انصاف پر مبنی ٹھہرا رہی تھی لیکن یدی یروپا کے استعفے کے بعد کانگریس کے کئی وکٹ گرنے کا خطرہ منڈرانے لگا ہے۔ راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت اپنوں کو فائدہ دلانے کے الزام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت اور ان کے سینئر وزیر راجکمار چوہان پہلے سے ہی لوک آیکت کے نشانے پر ہیں۔ ایسے میں جب بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا نے اپنے محض ایک داغی وزیراعلی ہٹا دیا تو کانگریس کے اوپر بھی ایسے داغیوں پر کارروائی کرنے کا دباؤ ضرور بڑھے گا۔ یکم اگست سے شروع ہورہے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اپوزیشن جارحانہ ہو سکتی ہے۔ اس دوران مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے استعفے کی مانگ اٹھ سکتی ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم لائسنس الاٹمنٹ گھوٹالے کے الزام میں جیل میں بند سابق وزیر مواصلات اے راجہ نے عدالت میں مورچہ کھول دیا ہے۔ راجہ کے علاوہ سابق ٹیلی کام سکریٹری سدھارتھ بیہورہ کے بیان نے بھی سرکار کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں صفائی دینی پڑ رہی ہے۔ بیہورہ نے کہا کہ دسمبر2007 ء میں لائسنس فیس کو لیکر ہوئی میٹنگ میں ریزرو بینک کے گورنر سبا راؤ اور اس وقت کے وزیر مالیات پی چدمبرم موجود تھے۔ بیہورہ کے اس بیان پر مرکزی وزیر مواصلات کپل سبل کو صفائی دینی پڑی۔ اپوزیشن اب ان سبھی بیانات اور اطلاعات کو اکٹھے کرنے میں جٹ گئی ہے۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر اور پی اے سی کے چیئرمین ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے پہلے ہی چدمبرم کے خلاف مورچہ کھولا ہوا ہے ۔ وہ چدمبرم کو بھی ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے کا حصے دار بتاتے ہیں، ان کے استعفے کی مانگ کررہے ہیں۔ حالانکہ سرکار اس سلسلے میں حالات کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے آپریشن ڈمیج کنٹرول میں جٹ گئی ہے۔ اس کے لئے زمین تحویل ترمیم بل ، لوکپال بل سمیت دیگر بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی حکمت عملی بنائی جارہی ہے تاکہ اپوزیشن کی دھار کو کمزور کیا جاسکے۔ یدی یروپا کے استعفے کے بعد اب کانگریس کے پاس کوئی اور ایسی بھاجپا کی مثال نہیں بچی جس سے وہ اپنا بچاؤ کرسکے۔
Tags: Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Karnataka, Lokayukta, Vir Arjun, Yadyurappa

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟