انا ہزارے تحریک پر آمادہ ،حکومت اسے ناکام کرنے کے درپے

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 31st July 2011
انل نریندر
جیسا کہ اس یوپی اے سرکار سے امیدتھی وہی ہوا۔ مرکزی حکومت نے ٹیم انا کو زور کا جھٹکا دیا ہے۔کیبنٹ نے لوکپال بل مسودے کو منظوری دے دی ہے۔ جس مسودے کو پاس کیاگیا ہے اس میں انا ہزارے کی اہم سفارشوں کو یکسر درکنار کردیا گیا ہے۔ سرکاری مسودہ اور ٹیم انا کے مسودے میں سب سے بڑا فرق وزیر اعظم اور عدلیہ کو لیکر ہے۔ ٹیم انا اس بات پر زور دے رہی تھی کہ لوکپال کے بارے میں وزیر اعظم اور عدلیہ ضروری ہے جبکہ سرکاری مسودے میں وزیر اعظم اس قانون کے دائرے سے باہر رہیں گے۔ جب وہ عہدہ چھوڑیں گے تب بدعنوانی کے الزامات کی جانچ لو کپال کرسکتا ہے۔ اسی طرح عدلیہ بھی لوکپال کے دائرے سے باہر ہوگی۔ عدلیہ کی ذمہ داری کیلئے الگ بل مانسون اجلاس میں لانے کی امید حکومت نے ظاہر کی ہے۔ سرکاری مسودے میں پارلیمنٹ میں ممبران پارلیمنٹ کا برتاؤ بھی لوکپال کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگا۔ البتہ پارلیمنٹ سے باہرکے کاموں پر لوکپال جانچ کرسکتا ہے۔ انا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے اندر بھی ممبران پارلیمنٹ کا برتاؤ لوکپال بل کے دائرے میں ہو۔ ایک بڑا اختلاف افسر شاہوں کو لیکر ہے۔ ٹیم انا کے لوکپال میں پوری افسرشاہی اس کے دائرے میں ہونی چاہئے۔ چاہے وہ مرکز کی ہو یا ریاستوں کی۔ جبکہ سرکاری لوکپال میں گروپ اے کے نیچے افسرشاہی جانچ کے دائرے سے باہر ہوگی۔ ان کے لئے الگ سسٹم ہوگا۔ اوپر کے افسران کی جانچ لوکپال کرسکتا ہے۔
ٹیم انا کے سبھی سپہ سالار حکومت کے رویئے اور مسودے سے بھڑک گئے ہیں۔ پرشانت بھوشن کا کہنا ہے جو مسودہ منظور کیا گیا ہے وہ لوکپال قانون کا نہیں بلکہ جولوکپال بل ہے۔ پرشانت کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے اس کارنامے کے خلاف پورے دیش میں گاندھی گری کریں گے۔16 اگست سے جنترمنتر میں انا ہزارے نے بھوک ہڑتال کا اعلان پہلے سے ہی کردیا ہے۔ پرشانت بھوشن نے وزیر اعظم کو لوکپال کے دائرے سے باہر رکھنے کو آئین کے منافی قراردیا ہے۔ انا نے کہا کہ سرکار نے دھوکا دیا ہے، ہم جنتا کے درمیان جائیں گے۔ ٹیم انا نے زوردیا تھا کہ کیبنٹ کے سامنے دونوں مسودے سرکاری اور انا کے رکھے جائیں تاکہ صحیح فیصلہ ہوسکے لیکن سیول سوسائٹی کا مسودہ کیبنٹ کے سامنے رکھا ہی نہیں گیا۔ صرف وزرا کا مسودہ ہی رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب وزیر قانون سلمان خورشید کا دعوی ہے کہ اس الزام میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ٹیم انا نے لوکپال بل کے لئے 40 اہم نکتے رکھے تھے۔ اس میں سے 34 نکتوں کو بل کے مسودے میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ٹیم انا کی کرن بیدی کہتی ہیں کہ جو بل منظور کیا گیا ہے وہ ایک دم لنگڑا لولا ہے۔ اس قانون کے دائرے سے وزیر اعظم اور عدلیہ کو باہر رکھا گیا ہے۔ ریاستوں میں بدعنوانی کے معاملے بھی اس کے دائرے میں نہیں آئیں گے۔ ریاستوں میں ضروری طور سے لوکپال مقرر کرنے کی تجویز بھی نہیں مانی گئی۔ اس طرح یہ بل دیش کے عوام کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق جیسا ہے۔ اطلاعات حق کے جانے مانے ماہر و رضاکار اروند کیجریوال نے منظور کردہ بل کی اس شق پر حیرانی ظاہر کی جس میں انتظام کیا گیا ہے کہ بدعنوانی کے معاملے کی کوئی شکایت جھوٹی نکلتی ہے تو اسے بھاری جرمانہ یا دو سال تک کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں شکایت کنندہ کے خلاف اتنی سخت شق بنانے سے لوگ ڈر جائیں گے۔ اس میں بدعنوانیوں کو الٹا اور طاقت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ لوکپال قانون بدعنوانی پر لگام لگانے کیلئے بنایا جارہا ہے یا بدعنوانیوں کو بچانے کیلئے بنایا جارہا ہے؟ کیجریوال نے لوکپال بل کو ’’دھوکا پال‘‘ بل قراردیا ہے۔
لوکپال کے مسودہ کی جو بھی اچھائیاں برائیاں ہیں انہیں ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو یہ صاف ہے کہ اسے لیکر بہت تلخ اختلافات ہیں۔ ایک طرف حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان اختلاف ہے تو دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان۔ کوئی اپوزیشن پارٹی سرکار کے مسودے سے متفق نہیں ہے اور اس کا نتیجہ کل سامنے آئے گا جب بل پارلیمنٹ میں پیش ہوگا۔ پیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں یہ بتانے کے لئے کسی جیوتش کی ضرورت نہیں کہ اس بل پر بھاری ہنگامہ ہوگا اور پورا امکان یہ ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو سونپ دیا جائے گا۔ یعنی اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ یہ پاس ہوجائے گا۔ پورے دیش میں بدعنوانی کے خلاف ایک لہر دوڑ رہی ہے۔ جنتا چاہتی ہے کہ بدعنوانی کے خلاف بلا تاخیر کچھ ٹھوس اور سخت قدم اٹھائے جائیں۔ لوکپال بیشک ہر مرض کی دوا نہیں ہے۔ لیکن یہ بدعنوانی کے خلاف ایک طاقتور ادارہ ضرور بن سکتا ہے اور دیش میں یہ پیغام جاتا ہے کہ سرکار بدعنوانی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن فوری سختی فائدے اور اختلاف لوکپال پر اپنی قسم کی عام رائے نہیں بننے دے رہے ہیں۔ لوکپال پر جب دیش کے بڑے ادارے پارلیمنٹ میں بحث ہوگی تب شاید کوئی ٹھوس قدم ابھرکر سامنے آئے۔ فی الحال تو ٹیم انا اپنی تحریک کی تیاری میں لگ جائے گی اور سرکار اسے فیل کرنے میں جٹ جائے گی۔
Tags: Anil Narendra, Anna Hazare, Congress, Daily Pratap, Lokpal Bill, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟