چین کا پہلی بار اعتراف حملے کی پشت پر پاکستانی دہشت گرد

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 4th August 2011
انل نریندر
ہند، امریکہ ، برطانیہ، اسپین، روس سمیت تمام ملکوں کے بعد اب شاید پہلی مرتبہ چینی حکومت نے بھی اپنے یہاں ہوئے تشدد کے پیچھے پاکستان میں پھل پھول رہی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہونے کی بات کہی ہے۔ چین کے سرحدی صوبے زنجیانگ میں سنیچر کے روز رمضان سے قبل کم سے کم تین دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ زنجیانگ کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی اوغور مسلمانوں کی ہے۔ بنیادی طور پر مسلم اکثریتی علاقہ ہے لیکن چینی حکومت نے بڑی تعداد میں ہانونشی چینیوں کو یہاں بسا کر انہیں اقلیت میں بدل دیا ہے۔ اس علاقے کے بنیادی باشندے مسلمانوں میں اس بات کو لیکر کافی ناراضگی اور کئی لوگ اپنی تہذیب کی حفاظت کے لئے چین سے آزاد ہونے کی مانگ پر اڑے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک انتہا پسند تنظیم مشرقی ترکستان اسلامی تحریک ہے۔ جس کے ممبران پر سنیچر اور ایتوار کی دہشت گردی کی واردات میں شامل ہونے کا شبہ جتایا جاتا ہے۔ اس تنظیم کا خاص مرکز پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں ہے اور چینی ذرائع کا دعوی ہے کہ واردات کرنے والوں میں دھماکہ خیز مادہ بنانے کی ٹریننگ پاکستانی دہشت گردی کے کیمپوں میں لی ہے۔ چین کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے انتہا پسند کیمپوں میں ٹریننگ لینے والوں کو القاعدہ سے بھی حمایت ملتی ہے اور اس کے پیچھے القاعدہ بھی ہے۔ ان حملوں میں قریب 20 لوگ مارے جاچکے ہیں۔ یہ الزام ایسے وقت لگایا گیا ہے جب پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے ان دنوں چین کا خفیہ دورہ کرنے کی خبریںآرہی ہیں۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نیوز کے مطابق قراگر سٹی حکومت کا کہنا ہے کہ سنیچر اور ایتوار کو ہوئے ان حملوں میں پاکستانی تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے ٹریننگ لینے والے دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ اس حملے کے بعد پکڑے گئے مشتبہ افراد نے قبول کیا ہے کہ حملہ آوروں کے سرغنوں نے انہی کیمپوں میں بم اور ہتھیار بنانے کی ٹریننگ لی ۔ وہ مذہبی نظریات کے تھے اور جہاد حمایتی بتائے جارہے تھے۔ زنجیانگ علاقے میں چین اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی مشترکہ سرحدیں ہیں۔ یہاں سے قراقرم شاہراہ کے راستے چین اور پاکستان کے درمیان کافی تجارت ہوتی ہے۔ زنجیانگ کے مغربی قراگر میں زیادہ تر مسلم اوغور آبادی ہے۔ وہاں چینی نژاد کے لوگوں کو آنے جانے سے اکثر فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔دونوں کے درمیان 2009 میں ہوئے جھگڑے میں 200 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اب تو چین کی آنکھیں کھلیں گی۔ آج تک چین ہمیشہ پاکستان کا حمایتی رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ ہی کہتا رہا ہے پاکستان دہشت گردی کا جنم داتا نہیں ہے بلکہ خود شکار ہے۔ بیشک کچھ حد تک یہ صحیح بھی ہے۔ آج یہ اسلامی جہادی تنظیم پاکستانی حکومت اور فوج کے کنٹرول سے باہر ہے۔ پاکستانی فوج میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ ان کو روک سکے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کے بیج کس نے بوئے ہیں؟ خود پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے ہمیشہ ان تنظیموں کی حمایت کی ہے۔ جب تک بھارت اور امریکہ ان جہادیوں کے نشانے پر تھے تب تک چین خاموش تھا اور عالمی اسٹیج پر پاکستان کا ساتھ دیتا تھا۔ اب جب خود پر آ پڑی ہے تو ہائے توبہ مچا رہا ہے۔فی الحال زنجیانگ میں دہشت گردی کا خطرہ زیادہ نہیں بڑھا ہے لیکن یہ پھیل سکتا ہے۔ چین میں اولمپک کھیلوں کے کچھ وقت پہلے بڑے پیمانے پر تشدد پھیل چکا تھا اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں ان جہادیوں کے حملے اور تیز ہوسکتے ہیں۔ فی الحال چین کو افغانستان میں امریکی مصیبت سے اپنا فائدہ دکھائی دے رہا ہے۔ ہندوستان کے آتنک واد سے نمٹنے میں آرہی اڑچن سے چین کو مزہ آرہا ہے لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ خود اس آگ سے زیادہ دن بچا نہیں رہ سکے گا۔ چین کے مفاد میں ہوگا کہ وہ پاکستان سے سختی سے پیش آئے اور اسے دہشت گردی کو فروغ دینے سے روکے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ قریب چین ہے اور چین کے کہنے کا اس پر اثر ہوگا۔ چین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چینی سامراجیہ کا اہم حصہ ہانونشی چینیوں کے راج کو مانتا ہے۔ دوسری نسلوں اور تہذیبوں کے لوگ چاہے وہ تبتی ہوں یا اوغور ہوں ، وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ چین کو اپنے ٹریک ریکارڈ کو بھی دیکھنا چاہئے۔ وہ دیش میں ایک بڑی آبادی والے مسلم فرقے سے برابری کا برتاؤ نہیں کرتا۔ زنجیانگ صوبے میں بھی اکثر ملازمتوں میں اوغور نہیں لکھا ہوتا۔وہاں کے مسلمانوں کو کچلنے کی جگہ ان کی بنیادی پریشانیوں پر زیادہ توجہ ہونی چاہئے۔ القاعدہ اور دہشت گرد تنظیموں کو ہمیشہ دبے کچلے مسلمانوں سے ہمدردی ملتی ہے۔ 
Tags: Anil Narendra, China, Daily Pratap, ISI, Pakistan, Terrorist, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟