دہلی کو جگانے کی غرض سے شرم مارچ یعنی سلٹ واک

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 3rd August 2011
انل نریندر
اس سال کے آغاز میں کینیڈا میں پہلے سلٹ واک کا آغاز کیا گیا تھا۔ کینیڈا کے پولیس ملازمین کے ذریعے خواتین کو صلاح دی گئی تھی کہ وہ اسکرٹ جیسے کپڑے نہ پہنیں۔ انگریزی میں اس کو بے شرمی کہا جاتا ہے۔ اس تبصرے کے بعد کینیڈا کی نیورسٹیوں کے طالبات نے سلٹ واک کا انعقاد کیا تھا۔ ایتوار کو نئی دہلی میں اسی طرز پر ایک سلٹ واک کی گئی ۔ اس میں بری تعداد میں غیرملکی خواتین بھی شامل ہوئیں۔ ہندوستان میں کیونکہ بہت سے لوگ ’’سلٹ ‘‘ لفظ سے بہت زیادہ واقف نہیں ہیں اس لئے اسے سلٹ واک یعنی ’بے شرمی مورچہ ‘ کا نام دیا گیا۔ اس پیدل یاترا کے لئے صبح 10 بجے سے ہی جنتر منتر پر لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ منتظمین کو امید تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ آکر دیش کی آبروریزی کے واقعات بھری راجدھانی دہلی میں اپنی حمایت اس پروٹیسٹ مارچ کو دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے زیادہ تعداد میں لوگ نہیں آئے اور واک کے لئے سات۔ آٹھ سو لوگ ہی جمع ہو پائے۔ ان میں بھی خاصی تعداد میں غیر ملکی تھے۔ دہلی کے طلباء سے لیکر دوسرے شہروں سے دہلی گھومنے آئی لڑکیوں نے بھی واک میں حصہ لیا۔ واک میں شامل لوگوں نے تختیاں لی ہوئی تھیں جن میں ’سوچ بدلو، کپڑے نہیں‘ ’ہمیں بھی ہے عزت سے جینے کا حق‘، ’شرم کرو شرمندہ نہیں‘ جیسے نعرے لکھے تھے۔ جنترمنتر پہنچ کر اسمتا تھیٹر گروپ کے لوگوں نے ایک نکڑ ناٹک بھی کیا۔ واک کے ذریعے نوجوانوں نے بتایا کہ یہ بے شرمی مورچہ ان بے شرموں کے خلاف ہے جو لڑکیوں کو پریشان کرتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف بھی جو متاثرہ کو ہی ملزم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ سلٹ واک میں جہاں لڑکیاں اپنے حق کی لڑائی لڑنے پہنچی تھیں وہیں ایسی خواتین بھی تھیں جنہیں اپنی بیٹی کے مستقبل کی فکر یہاں کھینچ لائی تھی۔ اپنی بچیوں کے ساتھ آئیں ان عورتوں کا کہنا تھا کہ جب ہماری بیٹیاں بڑی ہو جائیں گی تب انہیں اپنے حق اور سنمان کی مانگ کے لئے سلٹ واک میں نہ نکلنا پڑے، اس لئے ہم آج ہی آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جب یہ بڑی ہوجائیں تو ہم انہیں اس لئے کہیں آنے جانے سے نہ ٹوکیں کہ کہیں کوئی انہیں چھیڑ نہ دے یا کہیں ان کے ساتھ آبروریزی نہ ہوجائے۔
’بے شرمی مورچہ‘ کی کنوینرنیشالا سنگھ نے کہا کہ لڑکیاں اس طرح سے کپڑے پہنتی ہیں انہیں اس سے جوڑ کر کس کس طرح کا برتاؤ جھیلنا پڑتا ہے، ان پر کس طرح کی چھینٹا کشی ہوتی ہے، چاہے بس ہو یا کوئی بازار ہو یا اپنے کالج انہیں باتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے یہاں سلٹ واک کا انعقاد کیا گیا۔ انہوں نے کہالینگک برابری ، لینگک نظریات والی اور متاثرہ کو ہی ملزم ٹھہرانے کے مسئلے پر آواز اٹھانا ہی آج کے مظاہرے کا مقصد تھا۔ اپنے ہاتھ میں ’اپنی سوچ بدلو کپڑے نہیں ‘ تحریری تختے لئے شامل ہوئی آکانکشا نے کہا کہ والدین بھی گھر سے نکلنے کے وقت کہتے ہیں کہ بس میں جانا ہے تو ٹھیک سے کپڑے پہن کے جاؤ، بھلا یہ کوئی بات ہوئی؟ اپنے بچوں کو گود میں لئے ایک احتجاجی خاتون نے کہا کہ وہ مظاہرے میں اس لئے شامل ہونے آئی ہے تاکہ مستقبل میں اس کی بیٹی کے ساتھ بھی اسی قسم کا برتاؤ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ سماج کی ذہنیت بدلنے کا ہے۔ سماج میں دوہری ذہنیت کا نمونہ ہی ہے کہ پہننے اوڑھنے کی نصیحتیں صرف لڑکیوں کو ہی دی جاتی ہیں۔
 Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Slut Walk, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟