سونیا کی غیر موجودگی میں پارٹی کو ٹھیک ٹھاک چلانا چنوتی ہے

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 11th August 2011
انل نریندر
عام طور پر یوم آزادی کے موقعہ پر 24 اکبر روڈ پر واقع کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی پردھان ترنگا لہراتی ہیں لیکن اس سال پارٹی صدر سونیا گاندھی دیش میں نہیں ہیں اس لئے کسی اور کو ان کی غیر موجودگی میں جھنڈا لہرانا پڑے گا۔ سونیا گاندھی کے بعد امید تو یہ ہے کہ راہل گاندھی اس مرتبہ قومی پرچم لہرائیں گے۔ لیکن راہل گاندھی فی الحال امریکہ میں اپنی ماں کے ساتھ ہیں شاید وہ آج کل میں آجائیں گے۔راہل کا جلد لوٹ کرپارٹی کا کام سنبھالنا کانگریس کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ خیال رہے کہ سرجری کے لئے بیرون ملک روانہ ہونے سے پہلے سونیا گاندھی نے پارٹی کی کمان کیلئے راہل گاندھی ، اے کے انٹونی، احمد پٹیل اور جناردھن دویدی کی چار نفری کمیٹی کو سونپ دی تھی۔ اگر چہ کسی وجہ سے 15 اگست تک نہیں لوٹتے تو ہوسکتا ہے موتی لال ووہرا جیسے پارٹی کا کوئی سینئر لیڈر ترنگا لہرائے۔ وہیں ایک ہفتے بعد بھی سونیا گاندھی کی بیماری کو لیکر معمہ برقرار ہے۔ 4 اگست کو سونیا گاندھی کی سرجری ہوئی تھی۔ ابھی تک سرکاری طور سے نہ تو یہ بتایا گیا ہے کہ کس بات کی سرجری ہوئی ہے اور کہاں ہوئی ہے؟ ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس معمے کو کیوں پوشیدہ رکھا گیا ہے؟دکھ بیماری کسی کے بس میں نہیں ہوتی۔ چھپانے سے افواہیں جنم لیتی ہیں۔ آج سونیا گاندھی کی حالت کو لیکر جتنے منہ اتنی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ نہ تو پارٹی کے لئے اچھی بات ہے نہ ہی نہرو خاندان کیلئے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا کہ سونیا گاندھی کی بیماری اور علاج دونوں کے بارے میں باقاعدہ طور پر بتایا جاتا اور یومیہ ان کا صحت بلیٹن جاری ہوتا۔ سونیا گاندھی کا کچھ بھی اب پرائیویٹ نہیں رہا۔ وہ دیش کی جانی مانی عوامی شخصیت ہیں۔ ان کی صحت سے سارا دیش متاثر ہوتا ہے۔ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ وہ کب صحت یاب ہوکر واپس آئیں گی لیکن جب کوئی ٹھیک طرح سے بتاتا ہی نہیں تو جنتا کیا کرے؟ سونیا گاندھی کی علالت کے سبب اہم فیصلے زیادہ دن تک پارٹی نہیں ٹال سکتی۔ راہل کو جلد لوٹ کر کمان سنبھالنی ہوگی۔ بیشک روز مرہ کا کام کاج ٹھیک ٹھاک سے چلتا رہے اس کا انتظام تو ہوگیا ہے لیکن پارٹی کو متحدہ رکھنے کیلئے گاندھی خاندان کی غیر موجودگی کو پارٹی زیادہ وقت تک نہیں جھیل سکتی۔ پارٹی لیڈروں کی جھٹپٹاہٹ کو کانگریس کے سینئر لیڈر ماکھن لال فوطیدار نے یہ کہتے ہوئے بیان کیا ہے کہ سونیا گاندھی کے بغیر پارٹی ادھوری ہے لہٰذا پارٹی کے تمام نیتاؤں اشارہ دیا جارہا ہے کہ کانگریس صدر کی غیر موجودگی میں راہل جلد ہی واپس آکرکام سنبھالیں گے۔ ورکروں کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ سونیا گاندھی صحت یاب ہوکر جلد ہی دوبارہ پارٹی کی کمان سنبھالیں گی۔
راہل گاندھی ، اے ۔ کے انٹونی، احمد پٹیل اور جناردھن دویدی کو اگرچہ سونیا گاندھی نے اپنی غیر موجودگی میں پارٹی کا سروے سروا نامزد کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی دونوں کے بھروسے کا جو کور سات سال پہلے تھا وہ آج بھی ہے۔ اسے پھربخوبی سمجھ لینا چاہئے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ چاروں پہلے بھی کور ٹیم میں تھے اور آج بھی دگوجے سنگھ یا چدمبرم کے بول بالے کا جو شور تھا اس کی اصلیت کھل گئی ہے۔ ایسے ہی پرنب مکرجی کی جیسے پہلے پوزیشن تھی وہ آج بھی ہے۔ گاندھی خاندان کے کور میں وہی بیحد بھروسے مند ہوتا ہے جو کم بولتا ہے۔ لوپروفائل رکھتے ہوئے خوداپنا کام کرتا رہتا ہے۔ احمد پٹیل پچھلے 34 سال سے ایم پی ہیں۔لیکن آج تک وزیر نہیں بنے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی پوزیشن کا غلط استعمال نہیں کیا۔ وہ پارٹی سرکار معاملے میں کتنے اہم ہیں یہ سبھی جانتے ہیں۔ اسی طرح اے ۔ کے انٹونی ہیں1977 میں صرف 37 سال کی عمر میں پہلی بار کیرل کے وزیر اعلی بنے تھے، تب سے وہ کل ملاکر تین بار (1995-2001) میں وزیر اعلی بن چکے ہیں۔ جب وہ وزیر اعلی تھے ان کی اہلیہ جو بینک میں کام کرتی تھیں، پبلک بس میں سفر کرتی تھیں۔ انہوں نے کبھی بھی کسی طرح کا مطالبہ نہیں کیا۔ اسی طرح جناردھن دویدی اتنے اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود لوپروفائل رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح کی کچھ خوبیاں وزیر اعظم منموہن سنگھ میں بھی ہیں تبھی تو انہیں سونیا گاندھی کی اتنی اہم ذمہ داری سونپی۔ کانگریس پارٹی کو فی الحال روز مرہ کے کاموں کو ٹھیک ٹھاک چلانے کے علاوہ ایک اہم فیصلہ یوپی میں ٹکٹ بٹوارے اور یوپی لیڈر شپ کو لیکر کرنا ہوگا۔ اس کیلئے اسکریننگ کمیٹی کی میٹنگ ہونی ہے۔ موہن پرکاش کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ تبھی ہوگی جب راہل گاندھی واپس آئیں گے۔ راہل کا یوپی مشن2012ء ان کی غیر موجودگی میں ادھورا ہے اور ان کے لوٹنے پر ہی اس میں رنگ بھرا جائے گا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟