سترفیصدی آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور زراعت سب سے بڑا پیشہ ہے
مردم شماری کے مطابق دیش کی قریب 70 فیصدی آبادی اب بھی گاؤں میں بستی ہے۔ ہندوستان کی آبادی121 کروڑ ہے۔ مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ کے ذریعے جاری دیہی شہری آبادی کے بارے میں ہندوستان کی مردم شماری 2011ء کے پختہ اعداو شمار بتاتے ہیں کہ شہروں کی آبادی شرح گاؤں کی بہ نسبت زیادہ بڑھی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت دیہات کا دیش ہے یا بھارت کی روح گاؤں میں بستی ہے۔ ویسے تو اس طرح کے جملے کبھی کتابوں کا ضروری حصہ ہوا کرتے تھے لیکن پچھلی قریب ڈیڑھ دو دہائیوں سے جب سے یہ اقتصادی پالیسی اپنائی گئی ہے اقتصادی ماہرین کے دماغ سے گاؤں غائب ہونے لگے ہیں۔ اس کی حمایت میں کچھ زرخرید قسم کے اقتصادی ماہرین نئے نئے حقائق ڈھونڈکر پیش کرنے لگے ہیں۔ مثلاً کسی طرح گاؤں سے ہجرت اور کھیتی سے ان کی چاہت دور ہورہی ہے۔
دیش کی ترقی شرح میں زراعت کا اشتراک کم ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان ایک زرعی پردھان دیش ہے اور اس کی 70فیصدی آبادی ابھی بھی دیہات میں رہتی ہے لیکن ویسی اقتصادی پالیسیوں کی کمی ہے جو زراعت پر مبنی دیہی معیشت کو مضبوطی فراہم کرسکے۔ دیہی معیشت کی بد حالی کے لئے مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ وہ نہ تو مرکزی انتظامیہ پر زرعی خطے کی بھلائی میں معاون بننے والی پالیسیوں کو بنانے کے لئے دباؤ بنانے میں اہل ہیں اور نہ ہی اپنی سطح پر ایسے قدم اٹھا پا رہی ہیں جس سے کسان خودکفیل ہو سکے۔ بھلے ہی سیاسی پارٹیاں خود کو کسانوں اور گاؤں ،غریبوں کا ہتیشی بتاتی ہوں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ وہ دیہی آبادی کو محض ایک ووٹ بینک کی شکل میں دیکھتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ زرعی سیکٹر کی بھلائی کے لئے جو پالیسیاں بنتی بھی ہیں ان پر صحیح ڈھنگ سے عمل نہیں ہوتا۔ تمام برعکس حالات سے دوچار ہونے کے باوجود اگر کبھی کسان اناج کی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنی پیداوار کی صحیح قیمت نہیں ملتی اور ان کی کڑی محنت کا فائدہ تو بچولئے ہی اٹھا جاتے ہیں۔
ایک شرمناک پہلو یہ بھی ہے کہ ذخائر کی کمی میں ہر برس لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے ۔ ایسا آگے بھی ہوگا کیونکہ بار بار کی وارننگ کے باوجود مناسب پالیسیوں کو بنانے سے بچاجارہا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں گاؤں کی گذر بسر کی زندگی مشکل ہوتی گئی ہے کیونکہ تمام ترقیاتی اسکیموں کی توجہ شہروں پر دی جارہی ہے۔ ایک تو زرعی کام بے فائدہ ہوگیا ہے پھر پہلے سے موجود روزگار کے متبادل کے وسائل میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ ایک اچھا اشارہ ہے کہ گاؤں سے اب ہجرت شرح میں کمی آئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہات کے پاس ہی نوکریاں نکالی جائیں تاکہ روزگار کے ساتھ لوگ گاؤں میں ہی رہیں۔ شہروں کی طرف نہ بھاگیں۔
اب دیہات میں یہ تمام گلیمرس سہولیات تو آچکی ہیں ٹی وی، فلمیں وغیرہ اب گاؤں گاؤں پہنچ چکی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ گاؤں کو زیادہ سے زیادہ خود کفیل بنایا جائے۔ صحت سہولیات کی بھاری کمی ہے، اسکولوں کی بھی کمی ہے۔
اسکول ۔ ہسپتالوں کی کمی کو دور کیا جائے لیکن یہ سب کرنے کے لئے ہمارے اقتصادی ماہرین کو اپنی ترجیحات میں تھوڑی تبدیلی لانی پڑے گی۔ دنیا یا گلوبل معیشت کی دن رات دہائی دینے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت کا اصل مطلب گاؤں ہے۔ بھارت گاؤں پردھان دیش ہے اور جب تک یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی تب تک گاؤں کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا۔
دیش کی ترقی شرح میں زراعت کا اشتراک کم ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان ایک زرعی پردھان دیش ہے اور اس کی 70فیصدی آبادی ابھی بھی دیہات میں رہتی ہے لیکن ویسی اقتصادی پالیسیوں کی کمی ہے جو زراعت پر مبنی دیہی معیشت کو مضبوطی فراہم کرسکے۔ دیہی معیشت کی بد حالی کے لئے مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ وہ نہ تو مرکزی انتظامیہ پر زرعی خطے کی بھلائی میں معاون بننے والی پالیسیوں کو بنانے کے لئے دباؤ بنانے میں اہل ہیں اور نہ ہی اپنی سطح پر ایسے قدم اٹھا پا رہی ہیں جس سے کسان خودکفیل ہو سکے۔ بھلے ہی سیاسی پارٹیاں خود کو کسانوں اور گاؤں ،غریبوں کا ہتیشی بتاتی ہوں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ وہ دیہی آبادی کو محض ایک ووٹ بینک کی شکل میں دیکھتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ زرعی سیکٹر کی بھلائی کے لئے جو پالیسیاں بنتی بھی ہیں ان پر صحیح ڈھنگ سے عمل نہیں ہوتا۔ تمام برعکس حالات سے دوچار ہونے کے باوجود اگر کبھی کسان اناج کی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنی پیداوار کی صحیح قیمت نہیں ملتی اور ان کی کڑی محنت کا فائدہ تو بچولئے ہی اٹھا جاتے ہیں۔
ایک شرمناک پہلو یہ بھی ہے کہ ذخائر کی کمی میں ہر برس لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے ۔ ایسا آگے بھی ہوگا کیونکہ بار بار کی وارننگ کے باوجود مناسب پالیسیوں کو بنانے سے بچاجارہا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں گاؤں کی گذر بسر کی زندگی مشکل ہوتی گئی ہے کیونکہ تمام ترقیاتی اسکیموں کی توجہ شہروں پر دی جارہی ہے۔ ایک تو زرعی کام بے فائدہ ہوگیا ہے پھر پہلے سے موجود روزگار کے متبادل کے وسائل میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ ایک اچھا اشارہ ہے کہ گاؤں سے اب ہجرت شرح میں کمی آئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہات کے پاس ہی نوکریاں نکالی جائیں تاکہ روزگار کے ساتھ لوگ گاؤں میں ہی رہیں۔ شہروں کی طرف نہ بھاگیں۔
اب دیہات میں یہ تمام گلیمرس سہولیات تو آچکی ہیں ٹی وی، فلمیں وغیرہ اب گاؤں گاؤں پہنچ چکی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ گاؤں کو زیادہ سے زیادہ خود کفیل بنایا جائے۔ صحت سہولیات کی بھاری کمی ہے، اسکولوں کی بھی کمی ہے۔
اسکول ۔ ہسپتالوں کی کمی کو دور کیا جائے لیکن یہ سب کرنے کے لئے ہمارے اقتصادی ماہرین کو اپنی ترجیحات میں تھوڑی تبدیلی لانی پڑے گی۔ دنیا یا گلوبل معیشت کی دن رات دہائی دینے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت کا اصل مطلب گاؤں ہے۔ بھارت گاؤں پردھان دیش ہے اور جب تک یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی تب تک گاؤں کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا۔
Tags: Anil Narendra, Census of India, Daily Pratap, India, Population, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں