جس برطانوی سامراج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا،وہاں اندھیری رات ختم نہیں ہورہی
جب انگریزوں کی حکومت بھارت پر تھی تو انگریز یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ’دی سن نیورسیٹس‘ یعنی سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوگا۔برطانوی سامراج یعنی برطانوی عہد میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ وہ اتنا پھیلا ہوا تھا کہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں انگریزوں کا راج ہوا کرتا تھا۔ انگریزوں نے راج کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے۔ آہستہ آہستہ حالات بدلتے گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ انگلینڈ میں سورج نکلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ وہاں ایسی کالی رات چھائی ہوئی ہے کہ روشنی کا موقعہ تک نہیں مل رہا ہے۔پچھلے پانچ چھ دنوں سے انگلینڈ میں ایسا خوفناک فساد بھڑکا ہوا ہے جو اس کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعرات کے روز کہا کہ پولیس نے مانا کہ فسادات سے نمٹنے کیلئے اس کی حکمت عملی غلط تھی۔ انہوں نے کہا تشدد کے لئے اب تک 1300 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انگلینڈ کی لوک سبھا ہاؤس آف کامن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ تشدد کے دوران کئی شہروں میں ہوئے نقصان کی بھرپائی کیلئے ایک کروڑ پاؤنڈ کے راحت پیکیج کا اعلان کیاگیا ہے۔ گذشتہ 4 اگست کو پولیس کی فائرنگ میں ایک لڑکے مارک ڈگن جو افریقی نژاد سیاہ فام ہیں ، کے مرنے کے بعد 6 اگست کو ناٹنگھم سے شروع ہوئے دنگے آہستہ آہستہ مانچسٹر،سیلفرڈ، لیورپول، ناٹنگھم، لیسٹر اور بکنگھم تک پھیل گئے۔
انگلینڈ کے لوگ مہذب مانے جاتے ہیں لیکن سنیچر سے بھڑکے فسادات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ سب سے بڑے لٹیرے بھی ہیں۔ جن 1300 لوگوں کو کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایسے لوگ ہیں جن سے فساد بھڑکانا، لوٹ مار کرنے کی امید تک نہیں کی جاسکتی تھی۔ ان میں سے شاید ہی کسی کے خلاف پہلے جرائم کا ریکارڈ درج ہوا ہے۔ ان میں سب سے چھوٹا ایک11 سالہ بچہ بھی ہے تو ان میں کروڑپتی ماں باپ کی اولاد 19 سالہ ایک لڑکی لاراجنسن بھی ہے۔ ایک ٹیچر بھی پکڑا گیا ہے۔ گرفتار لوگوں میں ایک ہاؤس وائف بھی ہیں۔ زیادہ تر کو لندن کی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔ امید تو تھی کہ کورٹ انہیں رہا کردے گی لیکن دنگوں میں ملزمان کو کورٹ نے ابھی بری نہیں کیا ہے۔ان لٹیروں میں سب سے چونکانے والا نام لارا جانسن کا ہے۔لارا ابھی جیل میں ہے ۔ ان لٹیروں میں سب سے چونکانے والا نام سارا جانسن کا ہے۔اس کے والد رابرٹ جانسن ارپنگٹن میں ایک بڑے مکان میں رہتے ہیں۔ اس میں سوئمنگ پول ، ٹینس کوٹ سمیت سبھی سہولیات مہیا ہیں۔ لارا لندن کے سب سے مہنگے اسکولوں میں سے ایک اولوے گریمر اسکول میں پڑھی ہے لیکن اس کے کار لوٹ کے مال سے بھری ہوئی پائی گئی۔ اس کی کار میں پانچ ہزار پاؤنڈ کی مالیت کا سامان بھرا ہوا تھا۔ اس میں سے ایک توشیبا ٹی وی، مائیکرو یو اور موبائل فون بھی تھا۔ لندن اور دوسرے شہروں میں جیسے غنڈوں کا راج چل رہا ہو۔ انگلینڈ کے آبائی لوگ ہی لوٹ مار میں آگے نظر آئے۔ ان لٹیروں غنڈوں نے ایشیائی نژاد لوگوں کو بھی اپنا نشانہ بنایا۔بکنگھم میں اپنے فرقے کے لوگوں کو فسادیوں سے بچانے کی کوشش کررہے تین برطانوی ایشیائی شہریوں کو (پاکستانی مسلمان) ایک تیز آتی کار نے کچل ڈالا۔ مرنے والوں کی شناخت شہزاد ، ہیری حسین اور منور علی کے طور پر کی گئی ہے۔ شہزاد اور حسین آپس میں بھائی ہیں۔ بکنگھم سے آئی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں پھیلے تشدد کے دوران تینوں مسجد سے باہر نکل کر اپنی کار کی دھلائی کرنے کیلئے سڑک پرکھڑے تھے۔ فسادیوں کی ایک تیز کار نے انہیں کچل دیا۔ تینوں متوفین کی عمریں 30-31 اور 20 سال بتائی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ مانچسٹر میں ہوئے فسادات اور لوٹ مار کے واقعات بیحد شرمناک جرائم ہے جو اتنے وسیع پیمانے پر پچھلے 30 برسوں میں نہیں ہوا۔ اتنے خونریزی کبھی نہیں دیکھی گئی۔
انگلینڈ میں جب فساد پھیلا اور ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں نے دیکھا کہ پولیس انہیں قابو نہیں کرپا رہی ہے تو لٹل انڈیا کہے جانے والے لندن کے بیچ میں بسا ساؤتھ ہال میں ہندوستانی، پاکستانی ، بنگلہ دیشی چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا وہاں کے سرکاری ملازم ہوں سبھی اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے مورچہ سنبھال لیا۔ کرپانیں اور ہاکی لیکر یہ سب سڑکوں پر اتر آئے۔ پیر کی رات کو ان سیاہ فام فسادیوں نے ساؤتھ ہال کی ایک زیور کی دکان پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ دکان ایک پنجابی خاندان کی تھی جو ویسٹ ایلنگ میں رہتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ساؤتھ ہال میں یہ خبر پھیل گئی کہ ایشیائی دکانوں پر خاص کر جوہری کی دکانوں پر حملہ اور لوٹ مار کا امکان ہے۔ تقریباً300 افراد سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے شری گورو سنگھ سبھا گورودوارہ و ایک بڑی مسجد کے باہر مورچہ سنبھال لیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے تسلیم کیا ہے کہ پولیس نے فسادات کو ٹھیک ڈھنگ سے ہینڈل نہیں کیا۔ جب انگریزوں کے اپنے گھر کی بات آتی ہے تو وہ گولی چلانے تک سے کتراتے ہیں۔ قارئین کو تعجب ہوگا کہ اتنے خوفناک فسادات میں بھی پولیس کو گولی چلانے کی چھوٹ نہیں تھی۔ اب جاکر ربڑ کی گولیاں یا پانی کی بوچھاریں استعمال کی جارہی ہیں۔ یہ وہی انگریز ہیں جنہوں نے جلیانوالا باغ میں سینکڑوں امن پسند ہندوستانیوں پر گولیاں برسائیں تھیں۔ تحریک آزادی میں دیش بھکتوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئی تھیں اور اب اپنے گھر میں گولی چلانے تک پر بھی پابندی ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پورے لندن شہر میں محض 350500 پولیس جوان ہیں۔ ان میں سے صرف 2740 کے پاس ہتھیار ہیں باقی سب ڈنڈوں سے ہی دنگے پر قابو پانے میں لگے ہیں۔ فوج تک کو نہیں بلایا گیا ہے۔ جب ہم یہ سب دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم بھارت میں دنگوں سے انگریزوں سے کہیں بہتر نمٹنے میں اہل ہیں۔
برطانیہ میں بھڑکے دنگوں نے ایک بار یہ سوال ضرور کھڑے کردئے ہیں اور صاف کردیا ہے کہ یہ صرف قانون اور نظم کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ٹوری او ر لبرل ڈیموکریٹک محاذ حکومت کی پالیسیاں اور اس کی لاپرواہی کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ اصل میں کبھی دنیا بھر میں اپنی حکومت پھیلانے والا برطانیہ خود آج ایک جوالہ مکھی پر بیٹھا ہوا ہے۔ تقریباً50 لاکھ لوگ دوسرے ملکوں سے آکر نہ صرف بسے ہیں بلکہ وہاں کے شہری بھی بن گئے ہیں اور یہ تعداد برطانیہ کی کل آبادی کی 8 فیصدی کے قریب ہے۔ انگریزوں کے موازنے میں ایشیائی اور افریقی اور کریبیائی لوگوں کی معیار زندگی سے لیکر اقتصادی حالت میں بھی بھاری فرق ہے۔ انگریزوں کے مقابلے میں وہاں سیاہ فام لوگوں میں بے روزگاری کی شرح تین گنا ہے۔ بہت سے ایشیائی اور دوسری نسل کے لوگوں نے وہاں خوشحالی کے جھنڈے بھی گاڑھ رکھے ہیں۔لیکن عام انگریز اب بھی اپنے یہاں رہ رہے دوسرے دیش کے لوگوں کو آسانی سے قبول نہیں کرپا رہے ہیں۔ ابھی جو فساد بھڑکا ہوا ہے اس کے پیچھے افریقی کریبیائی نژاد کے ایک لڑکے مارک ڈگن کی پولیس فائرنگ سے ہوئی موت کو سبب بتایا جارہا ہے۔ بیشک اس واقعہ نے چنگاری کو بھڑکانے کا کام کیا مگر چار دنوں میں لندن سمیت مختلف شہروں میں پھیل چکے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اندر ہی اندر جو آگ سلگ رہی تھی وہ بھڑک اٹھی ہے۔ جن علاقوں میں فساد پھیلا ہے وہاں ہندوستانی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد لوگ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ فسادیوں نے جس طرح سے ہڑدنگ مچا رکھا ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ ان فسادات میں ایسے عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں جنہیں صرف لوٹ مار سے مطلب ہے۔ کچھ شوقیہ لوگ جنہیں ایسے کاموں میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی وہ بھی اس میں کود پڑے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے ان فسادات کے لئے برطانیہ کی حکومت بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ اس نے بجٹ اور دیگر خرچوں میں جو کٹوتی کی تھی اس کا خمیازہ وہاں کے غریب ،بیروزگار نوجوانوں کو زیادہ بھگتنا پڑا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر وقت دیش خاص کر ترقی یافتہ ملکوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔ اس بات پر غور کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ دنیا میں جن جمہوری ممالک کی دہائی دی جاتی ہے ان میں انگلینڈ بھی ایک ہے۔ بھارت کے لئے بھی اس میں ایک سبب ہے۔ ہیو ناٹس اور ہیونس کا بڑھتا فرق نہ تو دیش کے لئے ٹھیک ہے اور نہ ہی ہماری جمہوریت کیلئے۔ امیری بڑھتی جارہی ہے غریبوں اور امیروں میں فرق کم نہیں ہورہا ہے۔ بہرحال انگلینڈ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کیلئے سب سے بڑی چنوتی یہ ہے کہ وہ ان فسادات کو جلد سے جلد روکیں اور سرکار کی ان پالیسیوں پر پھر سے غور کریں جن کے سبب یہ فساد بھڑکے ہیں اور یہ کام جلد کرنا ہوگا کیونکہ 2012ء میں لندن میں اولمپک کھیل ہونے والے ہیں۔ اگر ہندوستانی ٹیم جو ان دنوں انگلینڈ کے دورے پر ہیں وہ بھی کہیں دنگوں کے سبب بیچ میں ہی ٹور منسوخ کرکے ملک واپس لوٹ آئے جیسا انگلینڈ ٹیم نے ممبئی فسادات کے دوران کیا تھا تو انگریزوں کو کیسا لگے گا؟
انگلینڈ کے لوگ مہذب مانے جاتے ہیں لیکن سنیچر سے بھڑکے فسادات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ سب سے بڑے لٹیرے بھی ہیں۔ جن 1300 لوگوں کو کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایسے لوگ ہیں جن سے فساد بھڑکانا، لوٹ مار کرنے کی امید تک نہیں کی جاسکتی تھی۔ ان میں سے شاید ہی کسی کے خلاف پہلے جرائم کا ریکارڈ درج ہوا ہے۔ ان میں سب سے چھوٹا ایک11 سالہ بچہ بھی ہے تو ان میں کروڑپتی ماں باپ کی اولاد 19 سالہ ایک لڑکی لاراجنسن بھی ہے۔ ایک ٹیچر بھی پکڑا گیا ہے۔ گرفتار لوگوں میں ایک ہاؤس وائف بھی ہیں۔ زیادہ تر کو لندن کی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔ امید تو تھی کہ کورٹ انہیں رہا کردے گی لیکن دنگوں میں ملزمان کو کورٹ نے ابھی بری نہیں کیا ہے۔ان لٹیروں میں سب سے چونکانے والا نام لارا جانسن کا ہے۔لارا ابھی جیل میں ہے ۔ ان لٹیروں میں سب سے چونکانے والا نام سارا جانسن کا ہے۔اس کے والد رابرٹ جانسن ارپنگٹن میں ایک بڑے مکان میں رہتے ہیں۔ اس میں سوئمنگ پول ، ٹینس کوٹ سمیت سبھی سہولیات مہیا ہیں۔ لارا لندن کے سب سے مہنگے اسکولوں میں سے ایک اولوے گریمر اسکول میں پڑھی ہے لیکن اس کے کار لوٹ کے مال سے بھری ہوئی پائی گئی۔ اس کی کار میں پانچ ہزار پاؤنڈ کی مالیت کا سامان بھرا ہوا تھا۔ اس میں سے ایک توشیبا ٹی وی، مائیکرو یو اور موبائل فون بھی تھا۔ لندن اور دوسرے شہروں میں جیسے غنڈوں کا راج چل رہا ہو۔ انگلینڈ کے آبائی لوگ ہی لوٹ مار میں آگے نظر آئے۔ ان لٹیروں غنڈوں نے ایشیائی نژاد لوگوں کو بھی اپنا نشانہ بنایا۔بکنگھم میں اپنے فرقے کے لوگوں کو فسادیوں سے بچانے کی کوشش کررہے تین برطانوی ایشیائی شہریوں کو (پاکستانی مسلمان) ایک تیز آتی کار نے کچل ڈالا۔ مرنے والوں کی شناخت شہزاد ، ہیری حسین اور منور علی کے طور پر کی گئی ہے۔ شہزاد اور حسین آپس میں بھائی ہیں۔ بکنگھم سے آئی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں پھیلے تشدد کے دوران تینوں مسجد سے باہر نکل کر اپنی کار کی دھلائی کرنے کیلئے سڑک پرکھڑے تھے۔ فسادیوں کی ایک تیز کار نے انہیں کچل دیا۔ تینوں متوفین کی عمریں 30-31 اور 20 سال بتائی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ مانچسٹر میں ہوئے فسادات اور لوٹ مار کے واقعات بیحد شرمناک جرائم ہے جو اتنے وسیع پیمانے پر پچھلے 30 برسوں میں نہیں ہوا۔ اتنے خونریزی کبھی نہیں دیکھی گئی۔
انگلینڈ میں جب فساد پھیلا اور ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں نے دیکھا کہ پولیس انہیں قابو نہیں کرپا رہی ہے تو لٹل انڈیا کہے جانے والے لندن کے بیچ میں بسا ساؤتھ ہال میں ہندوستانی، پاکستانی ، بنگلہ دیشی چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا وہاں کے سرکاری ملازم ہوں سبھی اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے مورچہ سنبھال لیا۔ کرپانیں اور ہاکی لیکر یہ سب سڑکوں پر اتر آئے۔ پیر کی رات کو ان سیاہ فام فسادیوں نے ساؤتھ ہال کی ایک زیور کی دکان پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ دکان ایک پنجابی خاندان کی تھی جو ویسٹ ایلنگ میں رہتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ساؤتھ ہال میں یہ خبر پھیل گئی کہ ایشیائی دکانوں پر خاص کر جوہری کی دکانوں پر حملہ اور لوٹ مار کا امکان ہے۔ تقریباً300 افراد سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے شری گورو سنگھ سبھا گورودوارہ و ایک بڑی مسجد کے باہر مورچہ سنبھال لیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے تسلیم کیا ہے کہ پولیس نے فسادات کو ٹھیک ڈھنگ سے ہینڈل نہیں کیا۔ جب انگریزوں کے اپنے گھر کی بات آتی ہے تو وہ گولی چلانے تک سے کتراتے ہیں۔ قارئین کو تعجب ہوگا کہ اتنے خوفناک فسادات میں بھی پولیس کو گولی چلانے کی چھوٹ نہیں تھی۔ اب جاکر ربڑ کی گولیاں یا پانی کی بوچھاریں استعمال کی جارہی ہیں۔ یہ وہی انگریز ہیں جنہوں نے جلیانوالا باغ میں سینکڑوں امن پسند ہندوستانیوں پر گولیاں برسائیں تھیں۔ تحریک آزادی میں دیش بھکتوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئی تھیں اور اب اپنے گھر میں گولی چلانے تک پر بھی پابندی ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پورے لندن شہر میں محض 350500 پولیس جوان ہیں۔ ان میں سے صرف 2740 کے پاس ہتھیار ہیں باقی سب ڈنڈوں سے ہی دنگے پر قابو پانے میں لگے ہیں۔ فوج تک کو نہیں بلایا گیا ہے۔ جب ہم یہ سب دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم بھارت میں دنگوں سے انگریزوں سے کہیں بہتر نمٹنے میں اہل ہیں۔
برطانیہ میں بھڑکے دنگوں نے ایک بار یہ سوال ضرور کھڑے کردئے ہیں اور صاف کردیا ہے کہ یہ صرف قانون اور نظم کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ٹوری او ر لبرل ڈیموکریٹک محاذ حکومت کی پالیسیاں اور اس کی لاپرواہی کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ اصل میں کبھی دنیا بھر میں اپنی حکومت پھیلانے والا برطانیہ خود آج ایک جوالہ مکھی پر بیٹھا ہوا ہے۔ تقریباً50 لاکھ لوگ دوسرے ملکوں سے آکر نہ صرف بسے ہیں بلکہ وہاں کے شہری بھی بن گئے ہیں اور یہ تعداد برطانیہ کی کل آبادی کی 8 فیصدی کے قریب ہے۔ انگریزوں کے موازنے میں ایشیائی اور افریقی اور کریبیائی لوگوں کی معیار زندگی سے لیکر اقتصادی حالت میں بھی بھاری فرق ہے۔ انگریزوں کے مقابلے میں وہاں سیاہ فام لوگوں میں بے روزگاری کی شرح تین گنا ہے۔ بہت سے ایشیائی اور دوسری نسل کے لوگوں نے وہاں خوشحالی کے جھنڈے بھی گاڑھ رکھے ہیں۔لیکن عام انگریز اب بھی اپنے یہاں رہ رہے دوسرے دیش کے لوگوں کو آسانی سے قبول نہیں کرپا رہے ہیں۔ ابھی جو فساد بھڑکا ہوا ہے اس کے پیچھے افریقی کریبیائی نژاد کے ایک لڑکے مارک ڈگن کی پولیس فائرنگ سے ہوئی موت کو سبب بتایا جارہا ہے۔ بیشک اس واقعہ نے چنگاری کو بھڑکانے کا کام کیا مگر چار دنوں میں لندن سمیت مختلف شہروں میں پھیل چکے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اندر ہی اندر جو آگ سلگ رہی تھی وہ بھڑک اٹھی ہے۔ جن علاقوں میں فساد پھیلا ہے وہاں ہندوستانی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد لوگ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ فسادیوں نے جس طرح سے ہڑدنگ مچا رکھا ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ ان فسادات میں ایسے عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں جنہیں صرف لوٹ مار سے مطلب ہے۔ کچھ شوقیہ لوگ جنہیں ایسے کاموں میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی وہ بھی اس میں کود پڑے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے ان فسادات کے لئے برطانیہ کی حکومت بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ اس نے بجٹ اور دیگر خرچوں میں جو کٹوتی کی تھی اس کا خمیازہ وہاں کے غریب ،بیروزگار نوجوانوں کو زیادہ بھگتنا پڑا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر وقت دیش خاص کر ترقی یافتہ ملکوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔ اس بات پر غور کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ دنیا میں جن جمہوری ممالک کی دہائی دی جاتی ہے ان میں انگلینڈ بھی ایک ہے۔ بھارت کے لئے بھی اس میں ایک سبب ہے۔ ہیو ناٹس اور ہیونس کا بڑھتا فرق نہ تو دیش کے لئے ٹھیک ہے اور نہ ہی ہماری جمہوریت کیلئے۔ امیری بڑھتی جارہی ہے غریبوں اور امیروں میں فرق کم نہیں ہورہا ہے۔ بہرحال انگلینڈ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کیلئے سب سے بڑی چنوتی یہ ہے کہ وہ ان فسادات کو جلد سے جلد روکیں اور سرکار کی ان پالیسیوں پر پھر سے غور کریں جن کے سبب یہ فساد بھڑکے ہیں اور یہ کام جلد کرنا ہوگا کیونکہ 2012ء میں لندن میں اولمپک کھیل ہونے والے ہیں۔ اگر ہندوستانی ٹیم جو ان دنوں انگلینڈ کے دورے پر ہیں وہ بھی کہیں دنگوں کے سبب بیچ میں ہی ٹور منسوخ کرکے ملک واپس لوٹ آئے جیسا انگلینڈ ٹیم نے ممبئی فسادات کے دوران کیا تھا تو انگریزوں کو کیسا لگے گا؟
Anil Narendra, Daily Pratap, London, London Riots, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں