فسادات کی زد میں آیا لندن

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 10th August 2011
انل نریندر
لندن میں پچھلے تین دنوں سے دنگوں کا دور دورہ جاری ہے۔ نارتھ لندن کے ٹوٹنہم علاقے میں جمعرات کو پولیس فائرنگ میں ایک شخص کی موت سے بھڑکے فسادات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ خیال رہے جمعرات کو مبینہ طور پر پولیس فائرنگ میں 29 سالہ شخص مارگ ڈگن کی موت واقع ہوگئی تھی۔ جس کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ لیکن سنیچر کے بعد ان مظاہروں نے فساد کی شکل اختیار کرلی۔ افریقی نژاد کے سیاہ فام لوگوں نے پولیس پر جم کر پتھراؤ کیا۔ اخبار دی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو مارگ ڈگن نامی شخص کے قتل کے بعد مقامی سیاہ فاموں نے انصاف کی مانگ کرتے ہوئے سنیچر کی شام پانچ بجے کے قریب ٹوٹنہم کے ہائی وے روڈ پر ایک پرامن مظاہرہ کیا۔ چشم دید گواہوں نے بتایا کہ لوگوں کا غصہ دیکھتے دیکھتے تشدد میں بدل گیا۔ موقعے پر سینکڑوں مظاہرین جمع ہوگئے۔
فسادیوں کو قابو کرنے کے لئے دنگا پولیس نے قابو پانے کی کوشش کی لیکن جب ایسا کیا تو فسادیوں نے پولیس کی گاڑیوں پر حملہ بول دیا اور ان کو آگ کے حوالے کردیا۔ معاملہ یہیں نہیں رکا، فسادیوں نے دکانوں کے شیشے توڑ کر اندر رکھا سامان لوٹنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی دکانیں لٹ گئیں۔ فسادیوں کو ٹرکوں میں سامان لاد کر بھاگتے دیکھا گیا۔ ٹوٹنہم میں بڑی تعداد میں افریقی اور کیربیا فرقے کے لوگ رہتے ہیں۔ اس خطے میں باقی لندن کے مقابلے میں بیروزگاری زیادہ ہے۔ ٹوٹنہم میں پہلی بار تشدد ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ فسادات قریب 25 سال پہلے 1985 میں ہوئے برطانیہ کے خوفناک دنگوں سے ملتے جلتے ہیں۔پولیس افسر بلیک لاک کو قتل کردیا تھا۔500 سے زیادہ لڑکوں نے سڑکوں پر اترکر پولیس پر حملے ، بسوں میں آگ لگانے، دکانیں لوٹنے جیسی حرکتوں کو انجام دیا تھا۔ سڑکوں پر گشت لگا رہیں پولیس کی دو کاروں کو بھی نذر آتش کردیا تھا۔ اس بار کے فسادات حالانکہ 1985 کے فسادات جتنے خوفناک نہیں لیکن تقریباً اسی طرح کے ہیں۔
یہ فساد ابھی بھی جاری ہے۔ بی بی سی ٹی وی کے کچھ ملازمین اور سیٹلائٹ ٹرک بھی حملے کے شکار ہوئے ہیں۔ واقعہ پر موجودہ بی بی سی کے نمائندے نے بتایا کہ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں جاری ہیں۔ فائر برگیڈ کی گاڑیاں بھی تشدد کا شکار بنی ہیں۔ ایک چشم دید گواہ نے کچھ یوں سڑک کا منظر بیان کیا ہے۔ یہ علاقہ اس وقت جنگ کا منظر پیش کررہا ہے۔ میں نے پانچ لڑکوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے چہروں کو ڈھکا ہوا تھا۔ا نہوں نے کچرے کی ٹرالی کو آگ لگادی اور اسے پولیس کی طرف پھینک دیا۔ پولیس کے مطابق پولیس نے ایک گاڑی کو روکا جس میں لڑکا مارگ ڈگن بیٹھا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق مارگ نے پولیس پر بغیر وجہ فائرننگ شروع کردی۔ اس کے بعد پولیس نے گولی چلائی۔ یہاں سے معاملہ شروع ہوا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس نے مارگ ڈگن کو بغیر وجہ مارا اور انہیں انصاف چاہئے۔ ٹوٹینہم سے بھڑکے تشدد این فیلڈ، بکسن، ڈاسٹون، اسلنگٹنگ، مستابو تک پھیل گئے ہیں۔ حملوں کے سلسلے میں اب تک100 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حملوں میں تقریباً دو درجن سے زیادہ پولیس والے بھی زخمی ہوچکے ہیں۔ انگلینڈ ایک جوالہ مکھی پر بیٹھا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ جہادیوں کا بھی برطانیہ سب سے بڑا اڈہ بن گیا ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے پڑھا تھا کہ کچھ لندن کے شہریوں نے وہاں شرعی قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکی نژاد سیاہ فام تشدد نظریئے کے ہوتے ہیں۔ یہ فسادات کہیں اور زیادہ نہ پھیل جائیں ابھی تک تو ہندوستانی ۔ پاکستانی نژاد کے لوگ بچے ہوئے ہیں لیکن اگر فساد بڑھتا ہے تو وہ بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
Tags: Anil Ambani, Daily Pratap, London, London Riots, UK, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!