اناہزارے کچھ حد تک اپنے مقصد میں کامیاب رہے
جن لوکپال بل پر حکومت اور ٹیم انا میں جنگ کا اعلان ہوگیا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ کیونکہ دونوں فریقین میں کئی اہم نکتوں پر اختلافات تھے۔ ادھر جمعرات کو حکومت نے لوک سبھا میں لوکپال بل پیش کیا تو ادھر انا نے بیمار ہونے کے باوجود مہاراشٹر کے رالے سدھی گاؤں میں بل کی کاپیاں جلا کر اس کی مخالفت کا بگل بجادیا۔ اب ٹیم انا نے سادگی سے تحریک کی وارننگ دی ہے۔ بل جلانے کے بعد انا نے ایک بار پھر سرکار پر حملہ بول دیا ہے اور کہا کہ سبھی ملازمین افسران کو لوکپال کے دائرے میں لایا جانا چاہئے۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا’’ہر ریاست میں لوک آیکت کی تقرری نہیں ہوئی تو بدعنوانی پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟ انہوں نے حکومت کی نیت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ سرکار کے لوکپال بل کی ہولی دیش کے گاؤں گاؤں میں جلے گی۔16 اگست تے انشن شروع کرنے پر انا نے کہا کہ اگر دیش سے بدعنوانی مٹانی ہے تو تحریک کا یہ ایک اچھا موقعہ ہے اور اسے ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا نوجوانوں سمیت سبھی ملک کے شہریوں کو اسے آزادی کی دوسری لڑائی سمجھ کر16 اگست سے شروع ہو رہے انشن میں شامل ہونے کی اپیل کرتا ہوں۔
بڑی اپوزیشن پارٹی نے حکومت کے ذریعے پیش کئے گئے لوکپال بل کی تلخ تلقین کی ہے۔ بھاجپا نیتا اور لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے کہہ دیا کہ آخر وزیراعظم کو لوکپال کے دائرے سے باہر کیوں رکھا جارہا ہے؟ جبکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ خود کہہ چکے ہیں کہ مجھے شخصی طور سے اس قانون کے دائرے میں لائے جانے سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سشما سوراج نے سرکار سے پوچھا کہ آخر کار پھر وزیر اعظم کو وہ لوگ ’’پوترگائے‘‘ مان کر کیوں دائرے سے باہر رکھنے پر آمادہ ہیں؟ بھاجپا لیڈروں نے کہا کہ وہ لوگ اپنی مخالفت پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے درج کرا کر دباؤ ڈالیں گے کہ وزیراعظم کو لوکپال بل کے دائرے میں لایا جائے۔ مرکزی وزیر کپل سبل نے پلٹ وار کرتے ہوئے بھاجپا سے پوچھا کہ جب بھاجپا کے اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے اس دور میں بھاجپا نے یہ قانون کیوں نہیں پاس کرادیا جبکہ این ڈی اے سرکار کے دور میں 2002ء میں لوکپال کا بل باقاعدہ لوک سبھا میں رکھا گیا تھا۔ اس وقت اس بل میں وزیر اعظم کو لوکپال کے دائرے میں رکھنے کی بات رکھی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ لوکپال بل پچھلے 42 سالوں سے لٹکا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسے پہلے بھی 9 مرتبہ رکھا جاچکا ہے لیکن وقت اور میعاد ختم ہونے کے سبب یہ بے موت مارا جاتا رہا ہے۔ انا کی تحریک سے اتنی امیدیں تو ضرور بندھی ہیں کہ اس بار دیر سویر بل پارلیمنٹ میں پاس تو ہوہی جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوک سبھا میں پیش کیا گیا لوکپال بل انا اور عوامی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک شروعات تو ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے۔ چاہے یہ لچر اور توقعات سے پورا نہ ہو لیکن اس کو لوکپال سمت کا وجود لینا ضروری ہے ۔ بلا شبہ سرکار چاہتیتو کہیں زیادہ پائیدارور عام لوگوں کو مطمئن کرنے والا لوکپال بل لا سکتی تھی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس سے مایوسی ہونا فطری ہی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت میں کئی بار کچھ اداروں کی تعمیر میں تھوڑی تاخیر ہوتی ہے۔ مرکزی اقتدار انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کو دہلی میں احتجاج کرنے کی اجازت دینے کے لئے آنا کانی کررہی ہے۔ اور اسے پارلیمنٹ کی توہین بتا رہی ہے۔ کیا عام جنتا کے احتجاج کے آئینی حق کی خلاف ورزی کرنا آئین کی توہین کرنا نہیں ہے؟ سرکار اپنے بل کی بیشک جتنی بڑائی کرے لیکن اسے یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ انا کے مطالبات کو عام جنتا سے حمایت حاصل ہے۔ انا فیل نہیں ہوئے بیشک وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے لیکن سرکار کو اتنا بھی مجبور کرنا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہی ہے۔
بڑی اپوزیشن پارٹی نے حکومت کے ذریعے پیش کئے گئے لوکپال بل کی تلخ تلقین کی ہے۔ بھاجپا نیتا اور لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے کہہ دیا کہ آخر وزیراعظم کو لوکپال کے دائرے سے باہر کیوں رکھا جارہا ہے؟ جبکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ خود کہہ چکے ہیں کہ مجھے شخصی طور سے اس قانون کے دائرے میں لائے جانے سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سشما سوراج نے سرکار سے پوچھا کہ آخر کار پھر وزیر اعظم کو وہ لوگ ’’پوترگائے‘‘ مان کر کیوں دائرے سے باہر رکھنے پر آمادہ ہیں؟ بھاجپا لیڈروں نے کہا کہ وہ لوگ اپنی مخالفت پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے درج کرا کر دباؤ ڈالیں گے کہ وزیراعظم کو لوکپال بل کے دائرے میں لایا جائے۔ مرکزی وزیر کپل سبل نے پلٹ وار کرتے ہوئے بھاجپا سے پوچھا کہ جب بھاجپا کے اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے اس دور میں بھاجپا نے یہ قانون کیوں نہیں پاس کرادیا جبکہ این ڈی اے سرکار کے دور میں 2002ء میں لوکپال کا بل باقاعدہ لوک سبھا میں رکھا گیا تھا۔ اس وقت اس بل میں وزیر اعظم کو لوکپال کے دائرے میں رکھنے کی بات رکھی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ لوکپال بل پچھلے 42 سالوں سے لٹکا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسے پہلے بھی 9 مرتبہ رکھا جاچکا ہے لیکن وقت اور میعاد ختم ہونے کے سبب یہ بے موت مارا جاتا رہا ہے۔ انا کی تحریک سے اتنی امیدیں تو ضرور بندھی ہیں کہ اس بار دیر سویر بل پارلیمنٹ میں پاس تو ہوہی جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوک سبھا میں پیش کیا گیا لوکپال بل انا اور عوامی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک شروعات تو ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے۔ چاہے یہ لچر اور توقعات سے پورا نہ ہو لیکن اس کو لوکپال سمت کا وجود لینا ضروری ہے ۔ بلا شبہ سرکار چاہتیتو کہیں زیادہ پائیدارور عام لوگوں کو مطمئن کرنے والا لوکپال بل لا سکتی تھی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس سے مایوسی ہونا فطری ہی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت میں کئی بار کچھ اداروں کی تعمیر میں تھوڑی تاخیر ہوتی ہے۔ مرکزی اقتدار انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کو دہلی میں احتجاج کرنے کی اجازت دینے کے لئے آنا کانی کررہی ہے۔ اور اسے پارلیمنٹ کی توہین بتا رہی ہے۔ کیا عام جنتا کے احتجاج کے آئینی حق کی خلاف ورزی کرنا آئین کی توہین کرنا نہیں ہے؟ سرکار اپنے بل کی بیشک جتنی بڑائی کرے لیکن اسے یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ انا کے مطالبات کو عام جنتا سے حمایت حاصل ہے۔ انا فیل نہیں ہوئے بیشک وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے لیکن سرکار کو اتنا بھی مجبور کرنا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہی ہے۔
Tags: Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Parliament, Price Rise, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں