اب تو غریب کی تھالی سے سبزی بھی غائب ہورہی ہے
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily |
Published On 2nd July 2011
انل نریندر
حکومت نے پیٹرول پمپ ڈیلروں کے کمیشن میں اضافے کو منظوری دے دی ہے جس سے پیٹرول 27 پیسے اور ڈیزل 15 پیسے مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ اس سے مہنگائی اور بڑھ جائے گی۔ پہلے سے ہی مہنگائی کی مار جھیل رہی جنتا پر اب اور مار پڑنے والی ہے۔ لیکن یوپی اے حکومت کو اس سے کوئی چنتا نہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ عام جنتا کو یہ مار ابھی کچھ اور وقت جھیلنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگلے سال مارچ تک مہنگائی شرح چھ فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ان کے وزیر مالیات پرنب مکھرجی فرماتے ہیں کہ ڈیزل ، رسوئی گیس اور مٹی کے تیل کے داموں میں حال ہی میں کئے گئے اضافے کو واپس نہیں لیا جائے گا۔ امریکہ کے دورے پر پہنچے پرنب نے بدھوار کو کہا کہ داموں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ بڑھتی مہنگائی کے سبب غریب آدمی کی تھالی سے سبزیاں بھی غائب ہونے لگی ہیں۔ ماہر اقتصادیات پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مونٹیک سنگھ آہلوالیہ نے بڑھتی قیمتوں کو دلیل آمیز قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کا اصل اصول ہے کہ کھپت کم کرو تو مہنگائی کم ہوگی۔ چیزوں کی قیمتیں کم ہوں گی تو مالیاتی خسارہ کم ہوگا۔ اس لئے مہنگائی گھٹانے کیلئے ہی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔
ڈیزل کی بڑھی قیمت کا اثر اب عام آدمی کی تھالی پر دکھائی دینا شروع ہوگیا ہے۔ بازار میں سبزیوں کے دام اونچائی چھونے لگے ہیں۔ تھوک بازار کی بہ نسبت خوردہ بازار میں یہ تیزی زیادہ نظر آرہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ڈیزل کی بڑھی قیمت کا حوالہ دیکر خوردہ کاروباری سبزیوں کی منمانی قیمتیں وصول رہے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر تھوک بازار میں ٹماٹر کے دام 10 گنا بڑھے ہیں وہیں خوردہ تاجروں نے اس کی قیمت 20 گنا تک بڑھا دی ہے۔ مہنگائی کے چلتے اب سلاد سے ٹماٹر بھی غائب ہوگیا ہے۔تھالی سے ہری سبزیاں بھی آہستہ آہستہ ندارد ہو رہی ہیں۔ڈیزل کی قیمتوں میں ہوئے اضافے کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتوں میں جو اچھال آیا ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ خوردہ کاروباری اس کا منمانا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دہلی کی آزاد پور تھوک منڈی میں جو ٹماٹر 30 مئی کو 1.60 پیسے کلو بک رہا تھا وہ 28 جون تک 15 روپے تک بکا۔ اور خوردہ بازار میں اس کی قیمت 45 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ جو آلو30 مئی کو 8 روپے کلو تھا وہ22 جون کو 12.50 پیسے اور 28-29 جون کو ٹماٹر خوردہ میں 30-45 روپے فی کلو بک رہا ہے۔ آلو کے دام 15 سے20 روپے ، پیاز 20 سے30 روپے کلو۔ پھول گوبھی 30-40 روپے اور ٹماٹر کی آمد متاثر ہوئی ہے جس کا اثر ان کے داموں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بھنڈی جو پہلے 7 روپے میں بکتی تھی وہ اب20 روپے میں بک رہی ہے۔ لوکی5 سے 15 روپے، توری 20 سے60 روپے کلو، کریلا 10 سے 35 روپے اور آلو 7 سے15 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔ مہنگائی اس دیش کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے بھارت کی 95 فیصد عوام براہ راست طور پر متاثر ہوتی ہے اور منموہن سرکار کے پاس اس کو گھٹانے کا نہ تو کوئی فارمولہ ہے اور نہ ہی قوت ارادی۔ وزیر اعظم اور ان کے وزیر مالیات و ان کے سپہ سالاروں کو زیاد ہ فکر گروتھ ریٹ کی ہے۔ بین الاقوامی ساکھ کی ہے۔ امریکہ ہماری اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے ، یہ وزیر اعظم کے لئے زیادہ ضروری ہے بہ نسبت بھارت کی عوام۔
ڈیزل کی بڑھی قیمت کا اثر اب عام آدمی کی تھالی پر دکھائی دینا شروع ہوگیا ہے۔ بازار میں سبزیوں کے دام اونچائی چھونے لگے ہیں۔ تھوک بازار کی بہ نسبت خوردہ بازار میں یہ تیزی زیادہ نظر آرہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ڈیزل کی بڑھی قیمت کا حوالہ دیکر خوردہ کاروباری سبزیوں کی منمانی قیمتیں وصول رہے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر تھوک بازار میں ٹماٹر کے دام 10 گنا بڑھے ہیں وہیں خوردہ تاجروں نے اس کی قیمت 20 گنا تک بڑھا دی ہے۔ مہنگائی کے چلتے اب سلاد سے ٹماٹر بھی غائب ہوگیا ہے۔تھالی سے ہری سبزیاں بھی آہستہ آہستہ ندارد ہو رہی ہیں۔ڈیزل کی قیمتوں میں ہوئے اضافے کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتوں میں جو اچھال آیا ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ خوردہ کاروباری اس کا منمانا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دہلی کی آزاد پور تھوک منڈی میں جو ٹماٹر 30 مئی کو 1.60 پیسے کلو بک رہا تھا وہ 28 جون تک 15 روپے تک بکا۔ اور خوردہ بازار میں اس کی قیمت 45 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ جو آلو30 مئی کو 8 روپے کلو تھا وہ22 جون کو 12.50 پیسے اور 28-29 جون کو ٹماٹر خوردہ میں 30-45 روپے فی کلو بک رہا ہے۔ آلو کے دام 15 سے20 روپے ، پیاز 20 سے30 روپے کلو۔ پھول گوبھی 30-40 روپے اور ٹماٹر کی آمد متاثر ہوئی ہے جس کا اثر ان کے داموں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بھنڈی جو پہلے 7 روپے میں بکتی تھی وہ اب20 روپے میں بک رہی ہے۔ لوکی5 سے 15 روپے، توری 20 سے60 روپے کلو، کریلا 10 سے 35 روپے اور آلو 7 سے15 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔ مہنگائی اس دیش کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے بھارت کی 95 فیصد عوام براہ راست طور پر متاثر ہوتی ہے اور منموہن سرکار کے پاس اس کو گھٹانے کا نہ تو کوئی فارمولہ ہے اور نہ ہی قوت ارادی۔ وزیر اعظم اور ان کے وزیر مالیات و ان کے سپہ سالاروں کو زیاد ہ فکر گروتھ ریٹ کی ہے۔ بین الاقوامی ساکھ کی ہے۔ امریکہ ہماری اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے ، یہ وزیر اعظم کے لئے زیادہ ضروری ہے بہ نسبت بھارت کی عوام۔
Tags: Anil Narendra, Cooking Gas, Daily Pratap, Diesel, Montek Singh Ahluwalia, Petrol Price, Pranab Mukherjee, Price Rise, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں