ڈاکٹر سچان کے قتل کے پیچھے کون؟
ہماری رائے میں تو اترپردیش کے ڈپٹی سی ایم او ڈاکٹر وائی ایس سچان کو لکھنؤ جیل میں قتل کردیا گیا۔ ڈاکٹر سنچیان کی لاش پر 8 جگہ پر بلیڈ سے کاٹے ہوئے کے نشان پائے جانے کے باوجود انتظامیہ ابھی بھی اسے خودکشی کا معاملہ مان رہی ہے۔ ڈاکٹر سنچیان کی لکھنؤ جیل کے بیت الخلا ء میں بدھ کے روز لاش کو پھندے سے لٹکا پایا گیا تھا۔ ان کے جسم پر کل9 زخم پائے گئے۔ جن میں 8 بڑے زخم ہیں جودھار دار ہتھیاروں سے حملے سے دئے گئے ہوں۔ ان میں سے 2 گردن پر،2 دائیں کوہنی پر، 2 بائیں کوہنی پر، ایک دائیں جھانگ کے اوپری حصے اور ایک بائیں کلائی پر تھے۔ اس کے علاوہ گلے میں پھندے کا نشان بھی پایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ موت سے پہلے سچان نے اپنی نسیں کاٹیں یا کسی نے کاٹیں؟ موقعہ سے ایک تیز دھار والا بلیڈ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ سرکار کا کہنا ہے سچان کی موت زیادہ خون بہنے کے سبب ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو ایسے زخم دیکر خودکشی کیسے کرسکتا ہے؟ اگر خودکشی خودکو چوٹ دیکر ہی کی گئی تو بیلٹ گھلے میں باندھنے کا کیا مطلب ہے؟ ڈاکٹر سچان کی بیوی مالتی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے شوہر دماغی طور سے ٹھیک ٹھاک تھے۔ وہ تو دوسروں کا حوصلہ بندھاتے تھے ، وہ خودکشی نہیں کرسکتے۔ ان کا قتل کیا گیا وہ پریشان تھے، کیونکہ پولیس والے ان کو ٹارچر کیا کرتے تھے، ان پر کافی دباؤ تھا لیکن وہ خودکشی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے پورے معاملے کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈاکٹر سچان سے پہلے ڈاکٹر ونود کمار جو اسی عہدے پر فائز تھے،27 اکتوبر کو مردہ پائے گئے تھے۔ سی ایم اوکے عہدے پر ڈاکٹر بی پی سنگھ کو 2 اپریل کو اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ صبح سیر کے لئے نکلے تھے انہیں گولی ماردی گئی تھی۔ تینوں افسروں کے قتل کے پیچھے تین ہزار کروڑ روپے سالانہ کا بجٹ سبب بتایا جاتا ہے۔ مئی2010 ء میں 3150 کروڑ روپے کی گرانٹ محکمے کو ملتی تھی۔ تمام سرکاری ہسپتال، دوائیں جو ان ہسپتالوں کو دی جاتی ہیں کے لئے محکمہ صحت کو 3150 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی تھی۔ ڈاکٹر بی پی سنگھ کے قتل میں خود ڈاکٹر سنچیان پر الزام لگے تھے کہ وہ اس کے قتل میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر سچان بدعنوانی کے الزام میں جیل میں بند تھے۔ ابھی بی پی سنگھ کے قتل کے معاملے میں ان سے پوچھ تاچھ ہونا باقی تھی۔ اس سے پہلے ان کا کام تمام کردیا گیا۔ یہ کام جیل کے اندر ہوا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ جیل کے کچھ افسران اس کانڈ میں ضرور شامل ہیں۔ دوائی مافیہ جس میں کئی بڑی شخصیتیں شامل ہیں، نے سچان کے قتل کے لئے موٹی سپاری دی ہوگی کیونکہ جیل کے اندر قتل کروانا آسان کام نہیں ہے۔ دوا کے ٹھیکیدار، سیاستداں، افسرشاہی سب اس کروڑوں روپے کے دھندے میں ملوث ہیں۔ پولیس نے بسپا ممبر اسمبلی بی رام پرساد جیسوال سے پوچھ تاچھ کی ہے کہ ان کے دوا کے ٹھیکیداروں سے کیا رشتے ہیں، اس کا انکشاف کریں۔ مایاوتی سرکار کو چاہئے کہ وہ پورے معاملے کی باریکی سے تحقیقات کروائے اور جو بھی اس کے پیچھے ہے اس کا پردہ فاش کرے۔ چاہے وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو؟ اس معاملے نے پہلے سے دباؤ سے گھری مایاوتی سرکار پر اور دباؤ بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر سچان سے پہلے ڈاکٹر ونود کمار جو اسی عہدے پر فائز تھے،27 اکتوبر کو مردہ پائے گئے تھے۔ سی ایم اوکے عہدے پر ڈاکٹر بی پی سنگھ کو 2 اپریل کو اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ صبح سیر کے لئے نکلے تھے انہیں گولی ماردی گئی تھی۔ تینوں افسروں کے قتل کے پیچھے تین ہزار کروڑ روپے سالانہ کا بجٹ سبب بتایا جاتا ہے۔ مئی2010 ء میں 3150 کروڑ روپے کی گرانٹ محکمے کو ملتی تھی۔ تمام سرکاری ہسپتال، دوائیں جو ان ہسپتالوں کو دی جاتی ہیں کے لئے محکمہ صحت کو 3150 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی تھی۔ ڈاکٹر بی پی سنگھ کے قتل میں خود ڈاکٹر سنچیان پر الزام لگے تھے کہ وہ اس کے قتل میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر سچان بدعنوانی کے الزام میں جیل میں بند تھے۔ ابھی بی پی سنگھ کے قتل کے معاملے میں ان سے پوچھ تاچھ ہونا باقی تھی۔ اس سے پہلے ان کا کام تمام کردیا گیا۔ یہ کام جیل کے اندر ہوا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ جیل کے کچھ افسران اس کانڈ میں ضرور شامل ہیں۔ دوائی مافیہ جس میں کئی بڑی شخصیتیں شامل ہیں، نے سچان کے قتل کے لئے موٹی سپاری دی ہوگی کیونکہ جیل کے اندر قتل کروانا آسان کام نہیں ہے۔ دوا کے ٹھیکیدار، سیاستداں، افسرشاہی سب اس کروڑوں روپے کے دھندے میں ملوث ہیں۔ پولیس نے بسپا ممبر اسمبلی بی رام پرساد جیسوال سے پوچھ تاچھ کی ہے کہ ان کے دوا کے ٹھیکیداروں سے کیا رشتے ہیں، اس کا انکشاف کریں۔ مایاوتی سرکار کو چاہئے کہ وہ پورے معاملے کی باریکی سے تحقیقات کروائے اور جو بھی اس کے پیچھے ہے اس کا پردہ فاش کرے۔ چاہے وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو؟ اس معاملے نے پہلے سے دباؤ سے گھری مایاوتی سرکار پر اور دباؤ بنا دیا ہے۔
Tags: Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, CBI, Daily Pratap, Dr. Sachan, Mayawati, Uttar Pradesh, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں