بھاجپا کے اسمبلی ضمنی چناؤ میں کامیابی کے اسباب


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 1st July 2011
انل نریندر
دو ریاستوں میں ہوئے اسمبلی ضمنی چناؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دونوں سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ مدھیہ پردیش کی جبیڑا سیٹ پر بھاجپا کے امیدوار دشرت لودھی نے کانگریس کی ڈاکٹر تانیہ سالومن کو 11738 ووٹوں کے فرق سے ہرایا۔ بھاجپا نے یہ سیٹ کانگریس سے چھینی ہے۔ ادھر بہار میں پورنیہ صدر سیٹ پر بھاجپا کی کرن کیسری نے کانگریس کے رام چرتر یادو کو23665 ووٹوں سے ہرایا۔ اس سیٹ پر بھاجپا کا قبضہ برقرار ہے۔ان شاندار کامیابیوں سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کانگریس کی ساکھ اور حالت اتنی خراب ہوگئی ہے اس کی ایک اور اہم وجہ ہے کے ان ریاستوں میں طاقتور لیڈر شپ بھاجپا حکمراں ریاستوں میں اچھی ساکھ کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ وہاں پارٹی کے لیڈر کی ساکھ صاف ستھری اور ایماندارانہ اور جنتا کے تئیں حساس اور افسرشاہی پر کنٹرول و صحیح ترجیحات کو رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ نیتا پروگراموں کو اپنے پاس رکھیں اور اقتدار میں ان سے سانجھے دار کریں۔ مجھے بی جے پی کے وفادار اور ہارڈ کور ورکر نے ایک پتے کی بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ بھاجپا اور کانگریس میں ایک بڑا بنیادی فرق کیا ہے؟ کانگریس جب اقتدار میں آتی ہے تو وہ ستہ کا سکھ اور فائدہ، انعام اپنے ورکروں سے بانٹتی ہے ۔ یعنی ورکر کو اقتدار کا فائدہ ملتا ہے۔ دوسری طرف بھاجپا نیتا چناؤ سے پہلے تو ورکروں کو بھائی ، باپ بنا لیتے ہیں اور چناؤ جیتنے کے بعد جب اقتدار کا فائدہ بانٹنے کی باری آتی ہے تو وہ اپنے ایئر کنڈیشننگ روم میں بند ہوکر رہ جاتے ہیں، ورکر ان کے پاس دفتر میں گھس بھی نہیں سکتا۔ وہ اقتدار کا فائدہ ، اقتدار کا سکھ اور پرساد خود ہی بھوگنا چاہتے ہیں، ورکروں سے بانٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگلے چناؤ میں وہ ورکر گھر پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہماری بلا سے یہ جیتے یا ہارے ہمیں کیا لینا دینا ہے؟ دوسری جانب کانگریس ورکر اگلے چناؤ میں پورا دم خم لگا دیتا ہے۔ اس لئے کیونکہ اپنے نیتا کو جتانے میں اس کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ جب تک بھاجپا مرکزی لیڈر شپ کو یہ معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آتی وہ شاید ہی اقتدار میں آسکے۔ اگر مدھیہ پردیش ، بہار یا گجرات میں بھاجپا کو اتنی کامیابی مل رہی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ وہاں پارٹی کے وزیر اعلی ہیں۔ عام ورکر اپنے آپ کو اپنے نیتا سے شناخت بیان کرتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کا کوئی بھی مسئلہ ہو گا یا اس کا کوئی کام ہوگا تو وہ اپنے نیتا پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ کانگریس میں کچھ نیتا چاہے جتنی بھی برعکس ہوا ہو ، چناؤ جیت جاتے ہیں کیونکہ ان کے ورکر انہیں جتانے کے لئے دن رات ایک کردیتے ہیں۔
آج بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ میں اتنی گروپ بندی ہے کہ پردھان منتری بننے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ انہیں سوائے اپنا جوڑ توڑ کرنے کے کسی کی فرصت نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا، نمبر گھٹانے کے کھیل میں یہ دن رات لگے ہوئے ہیں۔ یہ بات میں اکیلا نہیں کہہ رہا خود پارٹی کے سرکردہ لیڈر لال کرشن اڈوانی نے حال ہی میں کہی ہے۔ سابق نائب وزیر اعظم اور بھاجپا پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین لال کرشن اڈوانی فرماتے ہیں کہ ایمانداری کے معاملے میں پارٹی کی ساکھ گری ہے۔ انہوں نے کہا پارٹی میں اب گروپ بندی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے بھاجپا کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ بھاجپا کے اندرونی ذرائع کے مطابق اڈوانی نے دہلی میونسپل کارپوریشن کے بھاجپاکونسلروں کے لئے دہلی کے چھتر پور مندر میں منعقدہ ٹریننگ کیمپ کے افتتاحی اجلاس میں کہا کہ پارٹی کی کارپوریشن کے کاموں میں تو کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے ۔ ایمانداری کے معاملے میں پارٹی کی ساکھ گری ہے۔ اس معاملے میں انہوں نے احمد آباد میونسپل کارپوریشن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ایمانداری سے کام ہورہا ہے۔ انہوں نے دہلی پردیش بھاجپا میں پہلے بھی گروپ بندی تھی اور اب بھی یہ گروپ بازی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے صاف کہا کہ پارٹی کی ساکھ گرانے کے لئے خود پارٹی کے کچھ لیڈر ہی ذمہ دار ہیں۔ اڈوانی جی نے بیشک یہ باتیں دہلی پردیش بھاجپا کے لیڈروں کے لئے کہی ہوں لیکن اشاروں اشاروں میں وہ ایک تیر سے کئی شکار کر گئے ہیں۔ آج کی ضرورت یہ ہے کہ بھاجپا کی مرکزی لیڈر شپ کو دوسری لائن کے لیڈر پردھان منتری بننے کا خواب چھوڑیں اور بھاجپا ایسے شخص کو وزیر اعظم کے طور پر سامنے لائے جو پوری پارٹی کو ساتھ لیکر چل سکے۔ موجودہ لیڈر شپ میں تو مجھے ایسے تین متبادل نظر آتے ہیں جنہیں تجربہ ہے ،جو ایماندار ساکھ کے ہیں جو پارٹی ورکروں کو ساتھ لیکر چل سکتے ہیں۔ ان میں غرور اتنا نہیں آیا ہے کہ وہ اپنی زمین ہی بھول جائیں یہ ہیں شری لال کرشن اڈوانی، شری مرلی منوہر جوشی اور شری نریندر مودی۔
Tags: Anil Narendra, Bihar, BJP, Daily Pratap, L K Advani, Madhya Pradesh, Murli Manohar Joshi, Narender Modi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟