کیا اتنے مناسب ماحول کا بھاجپا فائدہ اٹھا پائے گی؟
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily |
19 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
کسی بھی اپوزیشن پارٹی کے لئے نہ تو یوپی اے حکومت سے بہتر اور کوئی حکمراں سرکار ہوسکتی تھی اور نہ ہی اتنی خراب ہے سیاسی ماحول جتنا منموہن سنگھ سرکار نے کردیا ہے۔ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی ایسے سیاسی ماحول کا انتظار کرتی رہتی ہے جب اتنی متنازعہ مرکزی حکومت ہو جتنی یہ حکومت ہے اس حکومت نے دیش کو کیا نہیں دیا ؟ بڑھتی مہنگائی بڑھتی قیمتیں ایک کے بعدایک گھوٹالہ اور دہشت گردی جیسے برننگ اشو پر ٹال مٹول کی پالیسی، نکسلیوں سے لڑنے کا قوت ارادی، تاناشاہی رویہ وغیرہ وغیرہ۔ کہنا کامطلب ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی وہ بڑی پارٹی ہے وہ اس سے بہتر سیاسی ماحول کی امید نہیں کرسکتی تھی۔ حود بھاجپا نیتا ارون جیٹیلی فرماتے کہ کانگریس لیڈر شپ والی مرکزی حکومت کو سیاست داں نہیں بلکہ افسر شاہی چلارہی ہے۔ آزادی کے بعد سے اتنی بدعنوان، نکمی اور کٹر حکومت جنتا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ سرکار اپنے پانچ سال پورے نہیں کرپائے گی کیونکہ اب جنتا کانگریس سرکار کو پھوٹی آنکھ میں نہیں بھارہی ہے۔ یہ سخت تذکرہ اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے پردیش بھاجپا کی جانب سے منعقدہ سنگھرش کے ایک سال پروگرام میں حال ہی میں کیا تھا۔ جیٹیلی نے کہا کہ بھاجپا کو تحریک چلانے کا شوق نہیں ہے لیکن منموہن سنگھ سرکار ایک کے بعدایک سنگین غلطیاں کررہی ہے کہ بھاجپا کو سڑک پر اترنے کے علاوہ کوئی راستہ اس کے پاس نہیں تھا۔ دیش کو ایسا وزیراعظم چلارہاہے جو ایک کٹ پتلی ہے ۔ پردہ کے پیچھے اقتدار کی بھاگ دوڑ دوسرے کے ہاتھوں میں ہے ۔تاریخ میں ایسا کئی دیکھنے کو نہیں ملتا جہاں سورہے ہزاروں نہٹے لوگوں پر رات کی تنہائی میں پولیس ٹوٹ پڑتی ہے بچوں اورعورتوں پر لاٹھیاں برسائے جائے۔ آنسو گیس کے گولے چھوڑے جائے۔ ارون جیٹیلی نے اس سرکار کوہیٹ لیس چکن کہاہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اس سرکار کا کوئی سر پیر نہیں ہے کوئی وارث نہیں ہے۔
اب منموہن سنگھ سرکار کی جو رپورٹ جیٹیلی صاحب نے پیش کی ہے وہ بہت بڑی حد تک صحیح لگتی ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب منموہن سنگھ سرکار کی بری حالت بن گئی ہے تو اس کا سیاسی فائدہ بڑی اپوزیشن پارٹی کے ناتے بھاجپااٹھاپارہی ہے۔؟ ہم نے دیکھا بھاجپااپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کاکردار صحیح طریقہ سے نہیں نبھا پائی۔ میں یوپی اے 1- ایک کی بات کررہا ہو۔ جب بھاجپا نہیں لیفٹ پارٹیاں بڑی اپوزیشن کا کردار بہتر طریقہ سے نبھا رہی تھی۔ یوپی اے 2میں کامریٹ موجود نہیں ہے سارا اپوزیشن کادارو مدار بھاجپا پر ہوتا ہے لیکن ایمانداری سے بھاجپانیتاؤں کو سوال کرناہوگا کہ وہ کیوں نہیں حالات کافائدہ اٹھاپارہے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ اتنا مناسب ماحول ہونے کے بعد بھی جنتا میں وہ اتنا بھروسہ پیدا نہیں کرپائی کہ جنتا انہیں مرکز میں دوبارہ سے اقتدار سونپنے کی ہمت دکھائے۔؟ اس میں کوئی شک نہیں ریاستوں میں بھاجپا کی سرکاریں اچھاکام کررہی ہے ان کی ساکھ بھی اچھی ہے اور جنتا سے کہنے کو کہہ سکتے ہیں کہ مرکز میں اچھااقتدار دیے سکتے ہیں۔ ایک بار ہمیں موقعہ ضرور دے ۔ ریاستوں میں اگر بھاجپا سرکاریں اچھاکام کررہی ہے تواس کی بنیادی وجہ ہے ہرریاست میں ایک مضبوط وزیراعلی ہے اور اسی وزیراعلی کے رہتے اس کی وجہ سے ریاست میں اچھی حکومت چل رہی ہے۔ گجرات میں نریندر مودی، مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان، اتراکھنڈ میں رمیش چند پوگھیریال اور ہماچل میں پریم کمار بھومل وغیرہ ان کی شخصیت اور ساکھ اور کارگزاری اوران کے اقتدار کی اہم خوبیاں ہیں۔ جن کی وجہ سے مرکزی لیڈر شپ ہے۔ مرکز میں تو بھاجپا لیڈر شپ نہ کے برابر ہے۔ دکھ سے کہن اپڑتا ہے کہ یہ دوسری صف کے نوجوان لیڈر آپس میں ہی ایک دوسرے کی کاٹ کرنے سے باز نہیں آتے ان کی نظرو ں میں پارٹی کی کوئی اہمیت ہے اورنہ ہی اس بات کی پرواہ وکر کیا سوچتا ہے۔ جنتا کی بات تو چھوڑوں۔ ان کے اپنے اپنے نجی ایجنڈے پارٹی ایجنڈے سے بالاتر ہے نجی خواہشات ہے اور جو ان کے آڑے آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ اتنااچھا ماحول ہونے کے باوجود جنتا میں بھروسہ نہیں کرپارہی ہے جو انہیں کرناچاہئے۔ اٹل جی اور اڈوانی کی رہنمائی میں بھاجپانے جو سنہرے دور دیکھا ان کے رہتے پارٹی ہوا کرتی تھی۔ اور ان کی اپنی ساکھ تھی ورکروں سے وہ جڑے ہوئے تھے جنتا کی نبض کو سمجھتے تھے لیکن آج کی لیڈر شپ اپنے ایئرکنڈیشنوں کے کمرے میں ہی بیٹھ کر اپنے ہی گن گان کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ لیکن سچائی بھی یہ ہے کہ آج بھارت کی عوام کو سبھی سیاسی پارٹیوں سے نیتاؤں سے بھروسہ اٹھ گیا ہے ان کی نظر میں سبھی برابر ہے یعنی ایک حمام میں سبھی ننگے ہے۔ وہ بھاجپاسے جاننا چاہتے ہیں۔ جو مسائل آج دیش کے سامنے ہے منہ پھاڑ رہے ان سے کیسے نبٹا جائے ۔ وہ جنتا چاہتی ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ کون کونسے ایسے قدم اٹھائے گی۔ جن سے گھوٹالہ رکے۔ قیمتوں پر قابو ہو۔مہنگائی گھٹے۔ بے روزگاری گھٹے، قانون نظم سدھرے، بجلی پانی جیسے پیچیدہ مسائل جیسے حل ہو کیا جنتا ان پر زیادہ بھروسہ کرے۔ ؟یہ ہے کچھ سوال جن کا میری رائے میں بھاجپا لیڈر شپ کوجواب دینا ہوگا۔جنتا کوبتاناہوگا۔ ہمیں اقتدار میں لائے تو ان مسائل کو کیسے حل کریں گے۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلے بھاجپا کو اپناگھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسے صحیح لیڈر شپ طے کرنی ہوگی۔ اپنی ترجیحات بتانی ہوگی۔ اب تو بھاجپا یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ آر ایس ایس ان کے کام کاج میں دخل اندازی کرتی ہے۔ جب سے آر ایس ایس کی بالا دستی موہن بھاگوت کے ہاتھ میں آئی ہے سیاست کے کچھ حد تک وہ الگ ہوگئی ہے اب سنگ روز مرے کے معاملے میں دخل نہیں دیتا ہوسکتاہے کہ بھاجپاکے کچھ لیڈروں کے میرے نظریات کچھ اچھے نہ لگیں۔ لیکن انہیں سمجھناچاہئے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ ایک طرح سے جنتا کی آواز ہے اور آج بہت سے لوگ یہ ہی چاہتے ہیں کہ بھاجپا اپناگھر ٹھیک کریں۔ تاکہ جلد سے جلد آنے والے موقعہ کاپورا فائدہ اٹھاسکے.
اب منموہن سنگھ سرکار کی جو رپورٹ جیٹیلی صاحب نے پیش کی ہے وہ بہت بڑی حد تک صحیح لگتی ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب منموہن سنگھ سرکار کی بری حالت بن گئی ہے تو اس کا سیاسی فائدہ بڑی اپوزیشن پارٹی کے ناتے بھاجپااٹھاپارہی ہے۔؟ ہم نے دیکھا بھاجپااپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کاکردار صحیح طریقہ سے نہیں نبھا پائی۔ میں یوپی اے 1- ایک کی بات کررہا ہو۔ جب بھاجپا نہیں لیفٹ پارٹیاں بڑی اپوزیشن کا کردار بہتر طریقہ سے نبھا رہی تھی۔ یوپی اے 2میں کامریٹ موجود نہیں ہے سارا اپوزیشن کادارو مدار بھاجپا پر ہوتا ہے لیکن ایمانداری سے بھاجپانیتاؤں کو سوال کرناہوگا کہ وہ کیوں نہیں حالات کافائدہ اٹھاپارہے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ اتنا مناسب ماحول ہونے کے بعد بھی جنتا میں وہ اتنا بھروسہ پیدا نہیں کرپائی کہ جنتا انہیں مرکز میں دوبارہ سے اقتدار سونپنے کی ہمت دکھائے۔؟ اس میں کوئی شک نہیں ریاستوں میں بھاجپا کی سرکاریں اچھاکام کررہی ہے ان کی ساکھ بھی اچھی ہے اور جنتا سے کہنے کو کہہ سکتے ہیں کہ مرکز میں اچھااقتدار دیے سکتے ہیں۔ ایک بار ہمیں موقعہ ضرور دے ۔ ریاستوں میں اگر بھاجپا سرکاریں اچھاکام کررہی ہے تواس کی بنیادی وجہ ہے ہرریاست میں ایک مضبوط وزیراعلی ہے اور اسی وزیراعلی کے رہتے اس کی وجہ سے ریاست میں اچھی حکومت چل رہی ہے۔ گجرات میں نریندر مودی، مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان، اتراکھنڈ میں رمیش چند پوگھیریال اور ہماچل میں پریم کمار بھومل وغیرہ ان کی شخصیت اور ساکھ اور کارگزاری اوران کے اقتدار کی اہم خوبیاں ہیں۔ جن کی وجہ سے مرکزی لیڈر شپ ہے۔ مرکز میں تو بھاجپا لیڈر شپ نہ کے برابر ہے۔ دکھ سے کہن اپڑتا ہے کہ یہ دوسری صف کے نوجوان لیڈر آپس میں ہی ایک دوسرے کی کاٹ کرنے سے باز نہیں آتے ان کی نظرو ں میں پارٹی کی کوئی اہمیت ہے اورنہ ہی اس بات کی پرواہ وکر کیا سوچتا ہے۔ جنتا کی بات تو چھوڑوں۔ ان کے اپنے اپنے نجی ایجنڈے پارٹی ایجنڈے سے بالاتر ہے نجی خواہشات ہے اور جو ان کے آڑے آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ اتنااچھا ماحول ہونے کے باوجود جنتا میں بھروسہ نہیں کرپارہی ہے جو انہیں کرناچاہئے۔ اٹل جی اور اڈوانی کی رہنمائی میں بھاجپانے جو سنہرے دور دیکھا ان کے رہتے پارٹی ہوا کرتی تھی۔ اور ان کی اپنی ساکھ تھی ورکروں سے وہ جڑے ہوئے تھے جنتا کی نبض کو سمجھتے تھے لیکن آج کی لیڈر شپ اپنے ایئرکنڈیشنوں کے کمرے میں ہی بیٹھ کر اپنے ہی گن گان کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ لیکن سچائی بھی یہ ہے کہ آج بھارت کی عوام کو سبھی سیاسی پارٹیوں سے نیتاؤں سے بھروسہ اٹھ گیا ہے ان کی نظر میں سبھی برابر ہے یعنی ایک حمام میں سبھی ننگے ہے۔ وہ بھاجپاسے جاننا چاہتے ہیں۔ جو مسائل آج دیش کے سامنے ہے منہ پھاڑ رہے ان سے کیسے نبٹا جائے ۔ وہ جنتا چاہتی ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ کون کونسے ایسے قدم اٹھائے گی۔ جن سے گھوٹالہ رکے۔ قیمتوں پر قابو ہو۔مہنگائی گھٹے۔ بے روزگاری گھٹے، قانون نظم سدھرے، بجلی پانی جیسے پیچیدہ مسائل جیسے حل ہو کیا جنتا ان پر زیادہ بھروسہ کرے۔ ؟یہ ہے کچھ سوال جن کا میری رائے میں بھاجپا لیڈر شپ کوجواب دینا ہوگا۔جنتا کوبتاناہوگا۔ ہمیں اقتدار میں لائے تو ان مسائل کو کیسے حل کریں گے۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلے بھاجپا کو اپناگھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسے صحیح لیڈر شپ طے کرنی ہوگی۔ اپنی ترجیحات بتانی ہوگی۔ اب تو بھاجپا یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ آر ایس ایس ان کے کام کاج میں دخل اندازی کرتی ہے۔ جب سے آر ایس ایس کی بالا دستی موہن بھاگوت کے ہاتھ میں آئی ہے سیاست کے کچھ حد تک وہ الگ ہوگئی ہے اب سنگ روز مرے کے معاملے میں دخل نہیں دیتا ہوسکتاہے کہ بھاجپاکے کچھ لیڈروں کے میرے نظریات کچھ اچھے نہ لگیں۔ لیکن انہیں سمجھناچاہئے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ ایک طرح سے جنتا کی آواز ہے اور آج بہت سے لوگ یہ ہی چاہتے ہیں کہ بھاجپا اپناگھر ٹھیک کریں۔ تاکہ جلد سے جلد آنے والے موقعہ کاپورا فائدہ اٹھاسکے.
Tags: Anil Narendra, Arun Jaitli, Congress, Corruption, Daily Pratap, L K Advani, Modi, RSS, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں