دہلی پولیس کا سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے والا حلف نامہ

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
21 جون 2011 کو شائع
انل نریندر
دہلی پولیس نے4 جون کی رات کو رام لیلا میدان سے بابا رام دیو اور ان کے حمایتیوں کو طاقت سے ہٹانے کی کارروائی کو جائز ٹھہراتے ہوئے سپریم کورٹ میں دعوی کیا کہ بابا رام دیو کو یوگ کیمپ کی اجازت دی گئی تھی لیکن وہ اس کے برعکس وہاں ستیہ گرہ کررہے تھے۔ دہلی پولیس کا دعوی ہے کہ بابا رام دیو کی جانب سے رام لیلا میدان میں منعقدہ پروگرام کی شرطوں کی خلاف ورزی کئے جانے کے سبب اس کے پاس اجازت واپس لینے کا کوئی اور متبادل نہیں بچا تھا۔ دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامے میں بابا رام دیو کے حمایتیوں پر لاٹھی چارج کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بھگدڑ میں کچھ لوگ زخمی ہوئے تھے ۔ حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بابا رام دیو پر اپنے حمایتیوں کو بھڑکانے کے لئے اسٹیج کا استعمال کا دعوی کیا گیا ہے کہ ستیہ گرہیوں کے ذریعے پتھراؤ کئے جانے پر پولیس نے آنسو گیس صرف آٹھ گولے داغے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بابا رام دیو کو رام لیلا میدان میں پانچ ہزار افراد کے یوگ کیمپ کی اجازت دی گئی تھی لیکن وہاں 20 ہزار لوگ موجود تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بابا رام دیو کو یوگ کیمپ کے انعقاد کی اجازت واپس لینے کے بارے میں 4 جون کی رات کو ایک بجے مطلع کیا گیا اور انہیں رام لیلا میدان خالی کرنے کے لئے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا۔
یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ دہلی پولیس سپریم کورٹ کو گمراہ کررہی ہے۔ پولیس اپنے کالے کارناموں کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ مظاہرین اور چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس کے اعلی افسروں نے لوگوں کو رام لیلا میدان سے گھسیٹ گھسیٹ کر باہر کرنے ، لاٹھی چارج کرنے کا حکم دیاتھا۔ پھر وہ سپریم کورٹ کے سامنے جھوٹ کیوں بول رہی ہے؟ انکم ٹیکس کے وکیل لوکیندر آریہ اس رات رام لیلا میدان میں تھے۔ وہ آریہ ویر دہلی پردیش کی جانب سے سیوا دینے اور رام لیلا میدان گئے تھے۔ لا ٹھی چارج میں ان کے بھی چہرے و پیٹ میں چوٹیں آئیں اور انہیں لوک نائک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ لوکیندر آریہ کے مطابق دہلی پولیس کے اعلی افسر امت رائے نے واضح الفاظ میں لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا۔ ام رائے کا بلا ان کی وردی میں لگا تھا جس سے ان کا نام مجھے یاد ہے۔ کچھ پولیس والوں نے تو بربریت آمیز رویہ اختیار کرنے سے اپنا بلا ہی چھپا لیاتھا اور احتجاج کرنے پر آر اے ایف اور پولیس کے جوانوں کو لیکر اسٹیج کے پاس پہنچ گئی تھی۔ مارکسوادی پارٹی کے قومی سکریٹری ڈی راجا کا کہنا ہے کہ پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔ مظاہرین کو کچلنے کیلئے سرکار و پولیس جب بھی ایسے قدم اٹھاتی ہے تو اس طرح کی بربریت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب پولیس کی منشا لاٹھی چارج کرنے کی تھی نہیں تو اتنی تعداد میں وہاں پولیس کیوں گئی؟ اسی سے دہلی پولیس کے جھوٹ کا پتہ چلتا ہے۔
4 جون کی کالی رات یاد کرکے آج بھی زخمی ہرے ہوجاتے ہیں۔ جس طرح سے سوئے ہوئے لوگوں پر پولیس نے لاٹھی چلائی تھی ان کا سوال ہے کہ پھر آج پولیس کیوں مکر رہی ہے۔ اگر لاٹھی نہیں چلی تو لوگوں کے ہاتھ پیر کیسے ٹوٹ گئے؟ میڈیا میں لاٹھی چارج کے فوٹو کہاں سے آئے؟ 70 سالہ راج یوگی کا کہنا ہے ان پر لاٹھی چلائی گئی لیکن انہوں نے پھر بھی ترنگا اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ یہاں تک کہ ہسپتال کے بیڈ پر بھی جھنڈا پکڑے تھے۔ ان کے پیٹ اور پیٹھ میں چوٹیں آئیں تھیں۔ رام گووند گپتا36 سال، بتاتے ہیں کہ پولیس کی لاٹھیاں لگنے سے ان کا دائیاں ہاتھ ہی ٹوٹ گیا تھا جس کا ابھی بھی پلاسٹر نہیں اترا ہے۔ وہ کبھی بھی اس کالی رات کو نہیں بھول پائیں گے۔ کہتے ہیں کہ دہلی پولیس نے جلیانوالا باغ کانڈ کو بھی مات دے دی۔ اس وقت تو دن میں گولیاں برسائی گئیں تھیں لیکن یہاں تو سوتے وقت لوگوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ دہلی پولیس کے ذریعے سپریم کورٹ میں جھوٹ بولنے پر کہتے ہیں کہ اس سے خود ہی پولیس بے نقاب ہوگئی ہے۔زخمی ہوئے جگدیش بتاتے ہیں کہ اگر لاٹھی نہیں چلی تو میڈیا میں لاٹھی چارج کے فوٹو کہا سے آگئے۔ درجنوں لوگ اس میں زخمی ہوئے۔ کسی کا ہاتھ ٹوٹا، کسی کا پیر۔ پھر اس کالی رات کی سب سے بڑی شکار خاتون راج بالا 17 دن بعد بھی اپنی زندگی اور موت کے درمیان جھول رہی ہے۔ گوڑ گاؤں کی سابق میونسپل کونسلر راج بالا نزعے سے باہر نکل آئی ہیں لیکن ابھی بھی ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اشاروں اشاروں میں وہ بات کو سمجھ رہی ہیں لیکن حالت ابھی بھی ان کی نازک بتائی جاتی ہے۔ جی پی پنتھ ہسپتال کے نیورو سرجری محکمے کے آئی سی یو 17 میں بھرتی راج بالا کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے اس کے جسم اور دماغ کے درمیان تال میل قائم نہیں ہو پارہا ہے۔ گردن کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے دماغ کی نسوں کو نقصان پہنچا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس رپورٹ کو جھوٹا اور گمراہ کن کرنے والی بتایا ہے۔اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے پارٹی کے دہلی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر وجے کمار ملہوترہ نے بتایا کہ پولیس اپنے آپ کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ میں جھوٹ بول رہی ہے۔ انہوں نے دہلی پولیس ، مرکزی حکومت اور وزارت داخلہ سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے زندگی اور موت کے درمیان جھول رہی راج بالا سمیت سینکڑوں لوگوں کے ہاتھ پاؤں بھگدڑ کے دوران ٹوٹے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی تو بھگدڑ کیوں مچی؟ ستیہ گرہ 4 جون کی صبح شروع ہوا تھا جو پر امن اور عدم تشدد پر مبنی تھا۔ اس میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔ وزارت داخلہ اور دہلی پولیس نیمظاہرین کو 4 جون کی درمیانی رات تک دھرنے پر بیٹھنے کی خود اجازت دی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی 4-5 جون کی رات بغیر وارننگ دئے رام لیلا میدان خالی کرانے کابغیر سوچے سمجھے فیصلہ کیاگیا؟ اگر صرف میدان خالی کرانے کا حکم تھا تو پولیس نے بند پنڈال میں آنسو گیس کے گولے کیوں داغے؟ بچوں ، بزرگوں ، خواتین پر بلا وجہ بغیر وارننگ دئے لاٹھی چارج کیوں کیا گیا؟ اگر پولیس نے ظلم نہیں کیا تو جس ٹھیکیدار نے میدان میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے تھے اس کے یہاں دہلی پولیس نے اچانک چھاپا مارکر اس دن کے پولیس مظالم کے ریکارڈ کرنے والی 42 سی ڈی کیوں زبردستی چھین کر غائب کردی ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا کے فٹیج بتاتے ہیں کہ 4-5 جون کی رات کو جو بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس نے جلیانوالاباغ کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ پولیس کو رام لیلا میدان خالی کرانے کی ہدایت تھی تب پولیس نے بے رحمانہ اور لٹیروں جیسا رویہ اپناتے ہوئے مظاہرین کے روپے، زیور کیوں لوٹے؟ کیا وجہ ہے کہ بابا رام دیو جیسے عالمی شہرت یافتہ یوگ گورو کو اپنی جان بچانے کے لئے خواتین کی کپڑے پہن کر عورتوں کے بیچ چھپنا پڑا؟ اگر دہلی پولیس اتنی ہی معصوم ہے تو وہ دن کے وقت رام لیلا میدان خالی کرانے کیوں نہیں آئی؟ رات میں جانے کا کیا مطلب تھا ۔ لوگوں کو کچلنا، ثبوت مٹانا۔ بھارت سوابھیمان ٹرسٹ کے ریاستی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر گیان کے مطابق پولیس نے بربریت آمیز طریقے سے لاٹھی چارج کیا اور اب وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ پولیس کا یہ کہنا کہ لوگ پتھر برسا رہے تھے اور واویلا کررہے تھے ، ڈنڈے لیکر آئے تھے، یہ سراسر جھوٹ ہے۔ رام لیلا میدان میں آنے والے ہر شخص کو پولیس جانچ سے ہوکر وہاں تک پہنچنا تھا۔ اس وقت تو پتھر و ڈنڈے نہیں ملے؟ ثبوت مٹانے اور گواہوں کو تیار رکھنے کیلئے خبرہے کہ پولیس اب زخمیوں کا بیان لینے کیلئے ان کے گھروں پر دستک دے رہی ہے۔ پولیس سرکاری معاوضے کا جھنجھنا تھمانے کے نام پر زخمی ہوئے لوگوں کا بیان درج کررہی ہے۔ پولیس نے ایسے 40 لوگوں کی فہرست تیار کی ہے جنہیں چھوٹیں آئیں تھیں۔ زخمیوں یا ان کے رشتے داروں کے ذریعے خدشتہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے بیان درج کرنے آئے ہیں۔ زخمیوں کے ذریعے بیان میں کسی پولیس افسر کا نام لینے پر انہیں دبی زبان میں دھمکی دی جارہی ہے؟ پیشے سے انکم ٹیکس وکیل لوکیندر آریہ کے مطابق جمعرات 16 جون 2011 کو دو پولیس والے ان کے پاس آئے تھے ایک سب انسپکٹر تھا تو دوسرا حولدار، انہوں نے کہا کہ آپ رام لیلا میدان میں زخمی ہوئے تھے اس لئے آپ کا بیان لینا ہے۔ سوال پوچھنے پر کہا کہ انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے بیان درج کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ان کی ڈیوٹی سپریم کورٹ کے سکیورٹی کنٹرول روم میں ہے۔ اگر آپ بیان دیں گے تو سرکار آپ کو معاوضہ دے گی۔ لوکیندر آریہ کے مطابق میں نے ان سے کہا مجھے ایسی سرکار سے معاوضہ نہیں چاہئے جو چور اور بد عنوان ہے ۔
 Tags: Anil Narendra, Baba Ram Dev, Congress, Daily Pratap, delhi Police, Ram Lila Maidan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟