نتن گڈکری کو دھول چٹانے میں جٹے انہیں کہ پارٹی لیڈر


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
25جون 2011 کو شائع
انل نریندر
ایک ہفتے کے ڈرامے کے بعد آخر بھاجپا نیتا شری گوپی ناتھ منڈے مان ہی گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج سے ملنے کے بعد مہاراشٹر میں بھاجپا کے چہرے اور لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے اپنے تیور نرم کرلئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی صدر نتن گڈکری کے خلاف منڈے کی بغاوت سے پیدا بحران فی الحال ٹلنے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ بھاجپا جو ایک وقت میں اپنے آپ کو ’پارٹی ود دی ڈفرنس ‘کہا کرتی تھی وہ کتنی نیچے آگئی ہے اور دوسری پارٹیوں کی طرح بن کر رہ گئی ہے۔ گوپی ناتھ منڈے اتنے اہم نہیں جتنا اہم ہے پارٹی میں ڈسپلن بنائے رکھنا۔ گوپی ناتھ منڈے نے کیا کیا نہیں کیا؟ انہوں نے کھل کر پارٹی صدر نتن گڈکری کو گالی دے ڈالی۔ پہلے شیو سینا میں جانے کی کوشش کی وہاں سے ان کے دروازے بند کردئے گئے۔ پھر کانگریس میں گھسنے کی کوشش کی۔ منڈے ہیں تو پرمود مہاجن کے بہنوئی اس لئے سودے بازی میں تو اپنے آپ کو ماہر سمجھتے ہیں۔ کانگریس سے انہوں نے اپنے آنے کی شرط رکھی۔ مجھے کیبنٹ کا درجہ چاہئے۔ رپورٹوں کے مطابق وہ سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر و سکریٹری احمد پٹیل سے اور مہاراشٹر کے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان سے بھی ملے۔ کانگریس نے الٹا شرط رکھی کہ آپ پہلے بھاجپا کی ٹکٹ پر بیڈ لوک سبھا سیٹ سے استعفیٰ دیں اور بطور کانگریس امیدوار وہاں سے ضمنی چناؤ جیتیں پھر آپ کو وزیر بنانے کی بات سوچی جائے گی۔ گوپی ناتھ منڈے اس کے لئے شاید تیار نہیں تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں پرتھوی راج چوہان کی خالی ہوئی راجیہ سبھا کی سیٹ دے دی جائے۔ جب کانگریس سے لات پڑی تو منہ بچانے کے لئے منڈے نے واپس آنے کا راستہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ یہاں سشما سوراج کام آگئیں۔ کیونکہ منڈے نے نتن گڈکری کو کھلی چنوتی دی تھی اس لئے بھاجپا کا ایک گروپ کی انہیں خفیہ حمایت مل رہی تھی۔ اس گروپ کے صدر نتن گڈکری کو نیچا دکھانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے۔بھاجپا کا آج ہائی کمان کیا ہے؟ کون ہے ہائی کمان؟ کانگریس میں تو سونیا گاندھی جو پارٹی صدر ہیں وہی ہائی کمان ہیں۔ ان کے فیصلے کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اچھے اچھوں کو آنکھیں دکھانے پر پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے لیکن بھاجپا میں حساب الٹا ہی ہے۔ صدر کو گالی نکالو اور ہیرو بنو۔ بھاجپا کو مضبوط کرنے میں لگے گڈکری کو پارٹی کے اندر ہی ایک گروپ روکنا چاہتا ہے تاکہ وہ پارٹی میں اپنی پکڑ مضبوط نہ کر پائیں۔ مہاراشٹر کی سیاست میں الجھا کر بھاجپا کی یہ لابی گڈکری کو کمزور صدر ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ جس سے وہ بڑے فیصلے نہ لے سکیں۔ منڈے نے بھاجپا میں بنے رہنے کا کوئی شکھانند نہیں کیا بلکہ گڈکری کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے لئے ایک چال چلی۔ بھاجپا میں یہ لابی سرگرم ہے۔ گڈکری کے بھاجپا میں پرانے لوگوں کو لانا انہیں راس نہیں آرہا ہے۔ گڈکری نے حال ہی میں اپنے کئی انٹرویو میں جو سخت سندیش دیا اس سے بھاجپا کی دوسری لائن کے لیڈر پریشان ہیں۔ گڈکری نے صاف کہا کہ وہ پارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے اپنے ایجنڈے پر قائم رہیں گے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ پرانے جمے لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے۔ گڈکری کے ساتھ ساتھ سنگھ پوری طرح کھڑا ہے۔ سنگھ چاہتا ہے کہ بھاجپا کی کھوئی ہوئی ساکھ واپس آجائے۔ گوپی ناتھ منڈے کی لڑائی اشوز پر نہیں ہے دراصل اشو ان کے لئے یہ ہے کہ ان سے جونیئر نتن گڈکری دسمبر2009 ء میں صدر بننے کے بعد ان سے اوپر کیسے پہنچ گئے۔ وہ آج بھی اپنے آپ کو گڈکری سے اوپر مانتے ہیں۔ وہ خود کو نظرانداز محسوس کررہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پارٹی کے اندر لیڈروں کے آپسی ٹکراؤ بڑھ رہے ہیں جو خود کو دوسروں سے الگ بتاتی آئی ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب کرناٹک کے ریڈی بھائیوں کو لیکر سشما سوراج اور ارون جیٹلی کی تکرار سرخیوں میں چھائی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا ہے پارٹی اٹل جی کے سرگرم سیاست سے الگ ہونے اور اڈوانی جی کی سرپرستی کے کردار میں آنے کے بعد سے لیڈر شپ بحران کا شکار ہے۔اصل میں پانچ سات برس پہلے تک جو لیڈر دوسری اور تیسری لائن میں گنے جاتے تھے وہ اب پہلی لائن میں شمار کئے جانے لگے ہیں اور ان میں آگے بڑھنے کی دوڑ لگ گئی ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ایسے وقت جب دیش گھوٹالوں کے غیر متوقع دور سے گذر رہا ہے ، مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی شباب پر ہے اور مرکزی سرکار کی مقبولیت سب سے نچلے پائیدان پر آگئی ہے۔ بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے بھاجپا کا ان سب سے لڑنے کیلئے نہ تو کوئی ٹھوس پروگرام ہے اور نہ ہی طاقتور لیڈر شپ۔ کل کو جنتا پوچھ سکتی ہے اگر جنتا آپ کو متبادل کی طرح چنے تو آپ کا پردھان منتری کا امیدوار کون ہوگا؟ آپ کی لیڈر شپ کیا ہے؟ ہماری رائے میں تو شری گوپی ناتھ منڈے کو نکال کر باہر کرنا چاہئے تھا تاکہ دوسروں کو بھی سبق ملے۔ اپنے آپ کو ’پارٹی ود دی ڈفرنس‘ کہلانے والی پارٹی سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس طرح کے سمجھوتے کرتی پھرے گی۔
Tags: Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Gopinath Munde, L K Advani, Maharashtra, Nitin Gadkari, Parmod Mahajan, Prithvi Raj Chavan, Sushma Swaraj, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟