پرنب مکھرجی کی جاسوسی انتہائی سنگین معاملہ

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
24جون 2011 کو شائع
انل نریندر
 یوپی اے حکومت پر لگتا ہے گرہن کا سب سے زیادہ اثر ہوا ہے۔ ایک کے بعد دیگر گھوٹالوں میں پھنستی جارہی ہے یہ سرکار۔ ابھی بابا رام دیو کا معاملہ، انا ہزارے سے تنازعہ سلجھا نہیں تھا کہ ایک اور گھوٹالہ سامنے آگیا ہے۔ یہ گھوٹالہ تونہیں لیکن انتہائی سنگین معاملہ ضرور ہے۔ یہ ہے مرکزی وزیر مالیات پرنب مکھرجی کے دفتر میں ٹیپنگ کرنے کا اشو۔ ایک انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس ‘ نے ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مرکزی وزیر مالیات پرنب مکھرجی نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ایک خط لکھاتھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے دفترنارتھ بلاک میں ان کی میز کے نیچے اورکم سے کم 15 دیگر میزوں کے نیچے چیونگم لگی پائی گئی تھی۔ وزیر مالیات کے دفتر میں ، ان کے مشیر اچیتا پال کے پرائیویٹ سکریٹری منوج پنت دو کانفرنس کمروں میں ایسی ہی چیونگم میزوں کے نیچے لگی پائی گئی ہیں۔ ان چیونگم کے اوپر ٹرانسمیٹر فٹ کیا جاتا ہے تاکہ جو بھی بات چیت ہو اسے سنا جا سکے۔ اسے ٹیپ کیا جاسکے۔ ان چیونگموں پر حالانکہ کوئی مائک تو نہیں لگا ملا لیکن نشان ضرور پائے گئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرنب دادا کی کوئی پوری جاسوسی کررہا تھا۔
اب دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ پرنب مکھرجی اس کی شکایت وزارت داخلہ سے نہیں کرتے جو عام طور پر ہونا چاہئے تھا۔ وہ سیدھے وزیر اعظم سے کرتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ وہ معاملے کی جانچ کریں۔ اس واقعے سے کئی باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کانگریس کے اندر کوئی گڑ بڑ ضرور ہے اور زبردست رسہ کشی پائی جاتی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے اسی کالم میں دو دن پہلے لکھاتھا کہ کانگریس پارٹی میں دو خیمے بن چکے ہیں۔ ایک خیمہ سونیا گاندھی و کانگریس پارٹی کا ہے تو دوسرا وزیر اعظم منموہن سنگھ و ان کے وزراء کا ہے جو حکومت کی حمایت لیتے ہیں۔ یعنی پارٹی بنام حکومت ۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم کا پرنب دا سے 36 کا آنکڑا ہے اور دونوں الگ الگ خیمے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے پرنب مکھرجی نے وزیر اعظم سے شکایت کی تھی وزارت داخلہ سے نہیں۔نارتھ بلاک اور ساؤتھ بلاک کا علاقہ انتہائی محفوظ زون مانا جاتا ہے مگر وزارت مالیات میں کسی نے ٹیپنگ آلات لگائے تو یہ کون ہوسکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے بغیر اندرونی ذرائع کے کوئی باہری طاقت یا شخص ان دفاتر میں پہنچ ہی نہیں سکتا کیونکہ یہاں سکیورٹی اتنی سخت ہے۔ کیا کانگریس نے خود اپنے وزیر مالیات کی جاسوسی کروائی ہے؟ سبرامنیم سوامی کا تو کہنا ہے یہ جاسوسی پی چدمبرم نے کروائی ہے۔ کیا یہ کام کسی باہری دیش کاہے؟ جو چیونگم پائی گئی وہ غیر ملکی معرکہ کی ہے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر ملکی حکومت یا طاقت نے جاسوسی کروائی۔ یہ بھی امکان ہے کہ کسی صنعتی گھرانے نے یہ جاسوسی اس لئے کرائی ہو تاکہ انہیں پتہ لگ سکے کہ وزارت مالیات میں کیا چل رہا ہے؟
پورے معاملے سے کئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ مثلاً جب پرنب مکھرجی کو اس کا پتہ تھا تو انہوں نے آئی بی کو اس کی جانکاری کیوں نہیں دی؟ کیونکہ آئی بی کے دائرہ اختیار میں یہ کام آتا ہے اور سرویلانس اور اینٹی سرویلانس میں وہ مہارت رکھتی ہے۔ پرنب مکھرجی نے سی ٹی بی ٹی کو چھان بین کے لئے کیوں کہا۔ کیونکہ ان کا یہ کام نہیں اور اسے معلوم بھی نہیں کہ ایسے حالات میں کیسے نمٹنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی ٹی بی ٹی نے کسی پرائیویٹ خفیہ ایجنسی کو بلا کر جانچ کروائی۔ آئی بی کو اس لئے نہیں بلایا گیا کیونکہ وہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور پرنب مکھرجی وزارت داخلہ کو ملوث نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں آئی بی کو بلایا گیا اور آئی بی نے کلین چٹ دیتے ہوئے کہہ دیا کہ چیونگم تو ملی ہے لیکن مائیکرو فون نہیں ملا۔ آئی بی تو کہے گی ہی؟ سرکار یہ نہیں چاہے گی کہ سچ سامنے آئے اور اس معاملے کودبانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ نارتھ بلاک اور ساؤتھ بلاک کے دفاتر کو ہر روز بند کرنے کی ذمہ داری ایک الگ محکمے کی ہے۔ بغیر چابیوں کے یہ دفتر کب اور کیسے کھلے تاکہ بگنگ ڈیوائز فٹ کی جاسکیں؟ کیا کوئی اس محکمے کا آدمی ملا ہوا تھا؟
وزارت مالیات پرنب مکھرجی اور ان کے مشیروں کی وزارت کے اندر جاسوسی کو لیکر جنتا پارٹی کے صدر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے الزام لگایا ہے کہ سونیا گاندھی کے کہنے پر پرنب مکھرجی کی جاسوسی کروائی گئی۔ ڈاکٹر سوامی نے کہا کہ سونیا گاندھی کے کہنے پر حسن علی معاملے میں وزیر خزانہ کی جاسوسی کرائی گئی ہے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم نے جاسوسی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جانکاری کے مطابق سپریم کورٹ کے دباؤ میں پرنب مکھرجی جھکتے نظر آرہے تھے۔کئی بڑے ناموں کا خلاصہ ہوسکتا تھا اس لئے پرنب مکھرجی کی جاسوسی کرائی گئی۔ وہیں سوامی کے الزام کے بعد سیاسی گہما گہمی تیز ہوگئی۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور تیز طرار بھاجپا کی نیتا سشما سوراج نے اس جاسوسی کانڈ کو امریکہ کے وارگیٹ اسکینڈل کا درجہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر مالیات کے دفتر کی جاسوسی کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ وزیر مالیات خود اسے مسترد کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ وہ انہیں کے دباؤ میں ہوسکتے ہیں لیکن دیش اصلیت جاننا چاہتا ہے۔ اپوزیشن کے حملوں کو دیکھتے ہوئے سرکاری مشینری بھی سرگرم ہوگئی ہے اور سرکار کی میڈیا سے متعلق کیبنٹ گروپ نے بھی اس بارے میں غور کیا ہے اور اس کے بعد کانگریس نے صفائی دینے کے بجائے بھاجپا کے الزاموں کو ان کی پانچ ریاستوں میں چناؤ میں ہار کی مایوسی قرار دیا ہے۔ دیش جاننا چاہتا ہے کہ اس میں سچ کیا ہے؟ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ اس معاملے سے کئی طرح کے سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ سرکار کو اس معاملے میں لیپا پوتی کرنے کے بجائے وزیروں کی جاسوسی کرنے والوں کا خلاصہ کرنا چاہئے۔ یہ معاملہ دیش کی معیشت سے وابستہ ہونے کے علاوہ دیش کی سلامتی سے بھی جڑا ہوسکتا ہے۔ معاملے کی پوری جانچ ہونی چاہئے اور سچائی جنتا کے سامنے آنی چاہئے۔ پرنب مکھرجی ایک بہت سلجھے ہوئے ، سمجھدار وزیر ہیں۔ اگر انہیں دال میں کچھ کالا نہیں دکھائی دیتا تو وہ جانچ کی مانگ کرتے ہی نہیں؟ اور پھر وزارت داخلہ کو چھوڑ کر براہ راست وزیر اعظم سے شکایت کیوں کی ؟
Tags: Anil Narendra, Anna Hazare, Baba Ram Dev, Corruption, Daily Pratap, Manmohan Singh, P. Chidambaram, Pranab Mukherjee, Subramaniam Swamy, Supreme Court, Sushma Swaraj, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟