افغانستان میں 10 سال پہلے امریکہ گھسا کیوں تھا؟
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily |
22جون 2011 کو شائع
انل نریندر
افغانستان میں تیزی سے سیاسی حالات بدل رہے ہیں۔ امریکہ نے اب وہاں سے بھاگنے کے اقدامات پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ حالیہ دنوں میں دو خبریں ایسی آئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں کچھ کھیل چل رہا ہے۔ پہلی خبر جو آئی تھی وہ یہ کہ بھارت سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سبھی 15 ممبردیشوں میں پابندیوں کے لحاظ سے ایک ایسی فہرست کو منظوری دی ہے جس میں طالبان اور القاعدہ کو الگ الگ نظریئے سے دیکھا جائے گا۔ اس کا مقصد طالبان اور افغانستان میں صلاح کرانے کی کوششیں بتائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں سکیورٹی کونسل نے گذشتہ جمعرات کی رات مکمل اکثریت سے ریزولیشن پاس کئے ہیں۔ ان میں پابندیوں کو لیکر طالبان کے لئے القاعدہ سے الگ فہرست بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس اہم قدم کے بعد القاعدہ اور طالبان آتنکیوں کو الگ الگ پیمانوں میں تولا جائے گا۔ دوسرا واقعہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا یہ کہنا کہ امریکہ طالبان سے بات چیت کررہا ہے، اس بارے میں پہلی بار سرکاری طور پر توثیق ہوئی ہے۔ کرزئی نے کابل میں ایک کانفرنس میں کہا طالبان کے ساتھ بات چیت شروع ہوگئی ہے اور اچھی پیشرفت ہوئی ہے۔ غیر ملکی فوجیں خاص کر امریکہ خود ہی بات چیت کرارہا ہے۔ امریکہ میں لیڈر شپ میں افغانستان میں جاری جنگ10 ویں سال میں داخل ہوگئی ہے اور وہاں پر لڑائی کے سیاسی حل کی آوازیں بھی تیز ہونے لگی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی نے جو انکشاف کیا ہے وہ افغانستان کے لئے جتنا خطرناک ہے اتنا ہی امریکہ کے مفاد پرمبنی ہے اور یہ دوہرے پن کا ایک ثبوت بھی ہے۔ افغانستان کے خلاف امریکہ نے آخر جنگ کیوں چھیڑی تھی؟ جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں 9/11 حملے کے لئے القاعدہ اور طالبان کو ذمہ دار مانتے ہوئے انہیں سبق سکھانے کے لئے یہ جنگ چھیڑی گئی تھی۔ پچھلے10 برسوں میں پہلے تو امریکہ نے اسی طالبان حکومت کو اقتدار سے معذول کیا تھا اور اب وہی طالبان اسے اچھے لگنے لگے ہیں اور ان سے دوبارہ اقتدار سنبھلوانے کی تیاری ہورہی ہے۔ ہم صدر براک اوبامہ اور امریکہ کی مجبوری کو سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ 2014 ء ادطعرتتک افغانستان سے امریکی فوج کی پوری واپسی ہونی ہے اس لئے اناً فاناً میں مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ اسی کے تحت طالبان سے بات چیت شروع کی ہے جو حالانکہ ابھی ابتدائی دور میں ہے۔ امریکہ کے کٹھ پتلی ادارے اقوام متحدہ نے طالبان اور القاعدہ پر اس لئے پرانا سسٹم روکتے ہوئے جو پیغام دیا ہے اس کا لب لباب یہ ہی ہے کہ اگر القاعدہ کا ساتھ چھوڑ کر طالبان افغانستان کا دوبارہ تعمیر نو میں معاون بنتا ہے تو اسے معافی دے دی جائے گی۔ ہمیں تھوڑا تعجب اس بات پر بھی ہوا ہے کہ آخر بھارت نے کیا سوچ کر سلامتی کونسل کے ریزولیشن پر اپنی مہر لگائی تھی۔ بھارت کی نظروں میں یہ طالبان ایک اچھی تنظیم بن گئی ہے جس سے بھارت کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے؟ سوال یہ نہیں کہ طالبان کیسا ہے، سوال یہ ہے ایک آتنکی تنظیم جس نے اپنا ایجنڈا عام کردیا ہو، ا س سے آپ سمجھوتے کی بات کررہے ہوں وہ بھی بکواس شرطوں پر؟ معاملہ تو یہ ایک آتنکی تنظیم سے بات چیت کر امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے اس کے تمام فیصلوں کے پیچھے صرف اسکا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اسے اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ اس گھوٹالے کا بھارت، پاکستان، ایران ملکوں پر کیا اثر پڑنے والا ہے؟ نہ ہی اسے اب عالمی آتنک واد سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی کوئی سروکار۔ اس لئے بات چیت میں افغان سرکار کو شامل نہیں کیا گیا۔ خود افغانی مانتے ہیں کہ یہ انتہائی خطرناک قدم ہوگا اور ملک پھر2001 ء سے پہلے کے حالات میں چلا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا سیدھا نقصان بھارت کو بھی ہوگا۔ بھارت کے ذریعے افغانستان میں جاری مختلف تعمیراتی اسکیموں کو جھٹکا لگے گا۔ اس سے کرزئی حکومت کی ساکھ اور طریقہ کار اور مستقبل پر نامناسب اثر پڑے گا۔ لیکن امریکہ کو ان سب سے کیا لینا دینا۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ ایک دہائی پہلے جو امریکہ ’وار آن ٹیرر‘ کا نعرہ دیکر افغانستان میں اس لئے داخل ہوا تھا کہ القاعدہ اور طالبان کو وہ ختم کرسکے، آج وہ اسے نہیں آتنکیوں کے حوالے کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے تاکہ افغانستان سے اسے بھاگنے کا راستہ مل جائے؟
Tag: 9/11, Afghanistan, Al Qaida, America, Anil Narendra, Daily Pratap, India, Iran, Osama Bin Ladin, Pakistan, Security Council, Taliban, UNO, USA, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں