کیا ڈاکٹر منموہن سنگھ کا پتاّ کٹنے والا ہے؟

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
22جون 2011 کو شائع
انل نریندر
وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مخالفت میں اب آوازیں تیزی سے اٹھنے لگی ہیں۔ عوام میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ساکھ دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اب تو کانگریس پارٹی میں بھی ان کے خلاف ایک خیمہ کھل کر بولنے لگا ہے۔ حکومت اور کانگریس میں دراڑ پڑ چکی ہے اور پارٹی کے ایک طبقے کو لگنے لگا ہے کہ منموہن سنگھ کانگریس پارٹی کی لٹیا ڈبو دیں گے۔ پچھلے دنوں جنتا دل متحدہ کے قومی صدر شرد یادو نے بھوپال میں اپنی پارٹی کی کانفرنس میں وزیر اعظم کو کچھ ان الفاظ میں بیان کیا۔ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ایسی گائے ہیں جودیکھنے میں سیدھی لگتی ہے لیکن نہ دودھ دیتی ہے نہ گوبر۔ ان کے سامنے ایک کے بعد ایک آزادی کے بعد سے سب سے بڑے گھوٹالے ہوئے ہیں اور وہ آنکھیں ٹکائے دیکھتے رہے۔ انہوں نے گڑ بڑ گھوٹالے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی کوئی پہل نہیں کی تھی۔ کارروائی تب شر وع ہوئی جب کورٹ نے انہیں حکم دیا۔ یادو کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے الزام میں ابھی کئی اور لوگ جیل جائیں گے۔ انہیں کوئی بچا نہیں پائے گا۔ آج دیش میں ہر طرف اوپر سے نیچے تک لوٹ مچی ہوئی ہے لگتا ہے کہ پورے کنوئیں میں افیم پھیل گئی ہے۔ کہیں ووٹ بک رہے ہیں تو کہیں ایمان۔
اگر میڈیا میں شائع خبروں پر یقین کیا جائے تو کانگریس میں بھی منموہن سنگھ کے خلاف اب آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ میں نظریاتی اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔ منموہن سنگھ اب اپنا خیمہ بنا رہے ہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن گھوٹالے اور پھر لوک پال بل کی تحریک کے حوالے ڈاکٹر منموہن سنگھ میں یہ ڈر بٹھا دیا گیا ہے کہ کچھ کرنا ہی ہوگا نہیں تو بدعنوانی کے سیدھے ملزم بنیں گے اور بے عزت ہوکر اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ اور جان لیں آج اسی ڈر سے منموہن سنگھ کام کررہے ہیں۔ اگر لوک پال بل بنا اور لوک پال کی تقرری ہوئی تو سب سے پہلے منموہن سنگھ کے خلاف ہی مواصلات گھوٹالے کی جانچ کی شکایت ہوگی۔ لوک پال ان کے لئے مصیبت ثابت ہوگا اس لئے نوٹ کرلیں کہ لوک پال بل کے دائرے میں وزیر اعظم کے عہدے کا آنا تب تک ممکن نہیں جب تک منموہن سنگھ وزیر اعظم ہیں۔ لگتا ہے کے شریمتی سونیا گاندھی یہ سمجھ چکی ہیں اور وہ پارٹی کو بچانے کیلئے منموہن سنگھ کے متبادل پر غور کررہی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کو ایک بار پھر وزیر اعظم بنانے کی مانگ نے زور پکڑ لیا ہے۔ رام لیلا میدان میں لاٹھی چارج کا فیصلہ بھی پردھان منتری خیمے نے کیا تھا۔ سونیا پورے معاملے سے نمٹنے کے طریقے سے ناراض ہیں۔
وزیر اعظم اور ان کے پی ایم او کو سارے گھوٹالوں کی پوری جانکاری تھی۔ دہلی کامن ویلتھ کھیلوں کے تنازعوں میں گھری آرگنائزنگ کمیٹی کی کارگزاریوں کے بارے میں پی ایم او کو پہلے ہی جانکاری تھی لیکن اس نے اس معاملے میں کوئی کارروائی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ آر ٹی آئی ورکر سبھاش چندر اگروال نے اطلاعات کے حق کے تحت جو جانکاری حاصل کی ہے اس کے تحت وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر کھیل کے درمیان کامن ویلتھ کھیلوں کے بارے میں 52 صفحات کا تبادلہ ہوا تھا۔ سال 2007 ء میں وزیر کھیل رہے منی شنکر ایئر نے کھیلوں کے بارے میں غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے ایک رپورٹ وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجی تھی۔ ایئر نے ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ ان کھیلوں کے تئیں سنجیدہ ہیں لیکن دستاویز ہمیں سوچنے کو مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم اس راستے پر چلیں جس سے دیش کو بھاری نقصان ہوسکتا ہے؟ اس مسئلے پر وزیر اعظم کے دفتر نے اپنی ایک اندرونی رپورٹ منظور کی ہے کہ وزارت کھیل اور آرگنائزنگ کمیٹی کے درمیان گھیرے اختلافات ہیں۔ وزارت کھیل جہاں شفافیت اور جوابدہی پر زور دے رہا ہے وہیں آرگنائزنگ کمیٹی اس کے لئے قطعی تیار نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کے پی ایم او نے کوئی کارروائی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایسے ہی ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے کا بھی معاملہ ہے۔ پی ایم او کو سب جانکاری تھی لیکن اس نے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔اسی کے چلتے آج کانگریس پارٹی منموہن سنگھ کو ایک ذمہ داری ماننے لگی ہے اور انہیں ہٹانے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
Tags:2G, Anil Narendra, Congress, Corruption, Daily Pratap, Lokpal Bill, Mani Shankar Aiyar, Manmohan Singh, Scams, Sharad Yadav, Sonia Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟