آنکھ کی پتلی کا حال دیکھ تلملا اٹھے کروناندھی
تمل زبان میں کنی موجھی کا مطلب ہوتا ہے آنکھ کی پتلی۔ ڈی ایم کے چیف ایم کروناندھی نے اپنی اس بیٹی کا نام برے پیار سے رکھا تھا کیونکہ کالی پتلی والی یہ بچی انہیں بہت پسند تھی۔ تبھی تو وہ جب تہاڑ جیل میں اپنی آنکھ کی اس پتلی بیٹی سے ملنے گئے تو گلے سے کنی کو لگاکر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ اور کنی بھی ان کے گلے لگ کر رونے لگیں۔ کنی موجھی کو سہارا دینے کے لئے والد کروناندھی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ تہاڑ جیل گئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ، داماد اور پوتا بھی تھا۔ پارٹی کے 8 ممبرپارلیمنٹ بھی جیل کمپلیکس تک آئے تھے لیکن انہیں جیلر کے کمرے تک جانے کی اجازت نہیں ملی۔ اندر ماں باپ، بیٹی داماد کے آنسو نکل رہے تھے تو باہرکچھ اور ہی نظارہ تھا۔ تہاڑ کی سکیورٹی میں تاملناڈو پولیس کی ڈیوٹی رہتی ہے اس لئے کچھ سپاہی اپنے دیش کے ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے باتیں کررہے تھے۔ چار سپاہی اور 8 ایم پی رونے کے انداز میں کھڑے تھے۔ جیسے ہی سامنے سے کروناندھی کا قافلہ آیا یہ ممبر پارلیمنٹ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔دو تامل سپاہی بھی اپنے آنسو نہیں روک پائے۔ پاس میں کھڑے ایک نیتا جی بولے یہ غم کے نہیں بلکہ وفاداری کے آنسو ہیں۔ ایسی وفاداری کے آنسو کبھی آپ نے بھی دیکھے ہیں؟ کروناندھی بغیر سونیا گاندھی سے ملے واپس چلے گئے۔
کانگریس اور ڈی ایم کے کے رشتے ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں۔ اس ٹکراؤ کے ماحول میں تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے اور آگ لگادی۔ انہوں نے سورگیہ راجیو گاندھی کے قتل میں ڈی ایم کے کا ہاتھ ہونے کا الزام لگادیا۔ منگلوار کو چناؤ جیتنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جے للتا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 1991 ء سے میں بھی لبریشن ٹائیگرز کے ڈر کے سائے میں جی رہی ہوں۔ ہم ہمیشہ سے کہتے آرہے ہیں کہ راجیو گاندھی کے قتل میں ڈی ایم کے درپردہ طور پر شامل تھا۔ جے للتا سے پوچھا گیا تھا کیا لبریشن ٹائیگرز کے سابق لیڈر سی پدمنابھن عرف کے پی نے واقعی یہ کہا تھا کہ اگر موقعہ ملا تو تامل جنگجو جے للتا کا قتل کردیں گے۔ جے للتا نے کہا کے ٹو جی گھوٹالے میں ہورہی قانونی کارروائی سے لوگوں کا عدلیہ میں اعتماد بحال ہوا ہے۔ کنی موجھی کی طرف سے خاتون ہونے کا حوالہ دیکر عدالت سے ضمانت مانگنے پر انہوں نے کہا یہ دلیل بالکل غلط ہے۔ سیاست اور جرائم کے معاملوں میں خاتون ہونے کے سبب رعایت نہیں مانگی جاسکتی ہے۔
کانگریس اور ڈی ایم کے کے رشتے ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں۔ اس ٹکراؤ کے ماحول میں تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے اور آگ لگادی۔ انہوں نے سورگیہ راجیو گاندھی کے قتل میں ڈی ایم کے کا ہاتھ ہونے کا الزام لگادیا۔ منگلوار کو چناؤ جیتنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جے للتا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 1991 ء سے میں بھی لبریشن ٹائیگرز کے ڈر کے سائے میں جی رہی ہوں۔ ہم ہمیشہ سے کہتے آرہے ہیں کہ راجیو گاندھی کے قتل میں ڈی ایم کے درپردہ طور پر شامل تھا۔ جے للتا سے پوچھا گیا تھا کیا لبریشن ٹائیگرز کے سابق لیڈر سی پدمنابھن عرف کے پی نے واقعی یہ کہا تھا کہ اگر موقعہ ملا تو تامل جنگجو جے للتا کا قتل کردیں گے۔ جے للتا نے کہا کے ٹو جی گھوٹالے میں ہورہی قانونی کارروائی سے لوگوں کا عدلیہ میں اعتماد بحال ہوا ہے۔ کنی موجھی کی طرف سے خاتون ہونے کا حوالہ دیکر عدالت سے ضمانت مانگنے پر انہوں نے کہا یہ دلیل بالکل غلط ہے۔ سیاست اور جرائم کے معاملوں میں خاتون ہونے کے سبب رعایت نہیں مانگی جاسکتی ہے۔
ڈی ایم کے ۔ کانگریس کو سبق سکھانے کیلئے بیتاب ہے لیکن اسے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے؟ اپنے محبوب ساتھی اے راجہ اور بیٹی کنی موجھی کے جیل چلے جانے سے کروناندھی ایک دم تمتمائے ہوئے ہیں۔ جیل میں بیٹی سے ملنے کے بعد ہر بار کی طرح وہ سونیا گاندھی سے ملنے نہیں گئے۔ خبر یہ ہے کہ ہوٹل تاج مان سنگھ میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور سکریٹری جنرل ڈگوجے سنگھ سے بھی انہوں نے ملنے سے منع کردیا۔ کانگریس کے ساتھ 7 برسوں پرانی دوستی میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کروناندھی دہلی آئے اور کانگریس کے کسی بھی لیڈر سے ملے بغیر واپس چلے گئے۔ کروناندھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت ان کے 18 ممبران کانگریس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لہٰذا اب وہ صحیح موقعے کی تلاش میں ہیں۔ ویسے بھی چناؤ ہارنے کے بعد وہ کتنے ہی مورچوں پر ایک ساتھ محاذ نہیں کھول سکتے۔
Tags: Anil Narendra, 2G, kani Mozhi, Karunanidhi, DMK, Tamil Nadu, Sonia Gandhi, Digvijay Singh, Vir Arjun, Daily Pratap,
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں