کیا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں؟


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily


27مئی 2011 کو شائع
انل نریندر

کراچی کے مہران بحریہ کے ہوائی اڈے پر ہوئے آتنکی حملے نے وہاں کی غیر منظم سلامتی اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کو لیکر بھارت کابے چین ہونا فطری ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس معاملے میں بھارت کی تشویشات کو ظاہر کردیا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ فوج کے ہیڈ کوارٹر پولیس ٹریننگ کیمپ کے بعد اب فوجی ہوائی اڈے پر خودکشی حملے جیسی آتنکی واردات روکنے میں پاکستانی مشینری کی ناکامی نے نہ صرف ہندوستان کے لئے تشویش کا باعث ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مہران اہم ٹھکانا ہونے کے باوجوداور اس سے وابستہ دیگر فوجی اداروں کے دفتر دور نہیں ہیں۔ یہ پاکستانی ایئر فورس کے مسرور مرکز کے قریب 40 کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ یہ نیوکلیائی ہتھیاروں کا ایک ڈپو مانا جاتا ہے۔ ایک ہندوستانی ڈیفنس ماہر کے مطابق پی این ایس مہران پاکستان کے سب سے بڑے بحری ایئر بیس میں شمار ہوتا ہے۔ جدید سازو سامان اور طیاروں سے مسلح اس اڈے پر آتنکیوں کا اتنی آسانی سے حملہ کردینا ، یہ خفیہ ایجنسیوں کی خامیوں کا اشارہ کرتا ہے۔ اندرونی شخص کی مدد کے بغیر آتنکیوں کو بحری اڈے میں ایئر کرافٹ کی موجودگی کا پتہ نہیں چل سکتا تھا۔جس طرح وہ گھنٹوں اس میں ڈٹے رہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پختہ معلومات کے ساتھ یہاں آئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے خلاصہ کیا ہے کہ مہران فوجی اڈے کے پاس ہی مسرور ایئر فورس کا بیس ہے۔ جہاں پاکستان کا ایٹمی ذخیرہ ہے۔ یہاں کافی نیوکلیائی بم ہیں جنہیں مزائلوں اور جنگی جہازوں سے ممکنہ نشانوں پر مار کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امریکی ڈیفنس ماہرین کا اندازہ ہے پاکستان کے پاس اس وقت 100 نیوکلیائی بم ہیں۔
سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے اندر القاعدہ ،لشکر طیبہ جیسی آتنکی تنظیموں کی مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ان کی مد د سے اگر آتنکی مسرور ایئر فورس بیس پر حملہ کرتے ہیں تو اس کے خوفناک نتائج ہوسکتے ہیں؟ مان لیجئے بڑا حملہ ہوتا ہے اور اس حملے میں نیوکلیائی بم متاثر ہوجاتا ہے اور ریڈی ایکٹو کرنیں لیک ہوجاتی ہیں تو کیا ہوگا؟ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ اگر ان میں سے کچھ آتنکیوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو کم سے کم چھوٹا اور ڈرٹی بم بنا سکتے ہیں۔ تیسرا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان فوج میں ان آتنکیوں کے ہمدرد آتنکیوں کو نیوکلیائی بم بنانے کی تکنیک مہیا کروا دیتے ہیں تو کیا ہوگا؟ ان سب امکانات کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاک اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں کی سکیورٹی پر زیادہ توجہ دے اور اپنے اندر موجود بھیدیوں کی پہچان کرے اور اس بات کی جانچ کرے کہ مہران ایئر بیس پر جو حملہ ہوا ہے کیا اس میں کسی پاکستانی فوج کے راز داں کا ہاتھ تو نہیں تھا؟ امریکہ ابھی اس کو لیکر الجھن میں پڑا ہوا ہے۔ امریکی صدر کے سابق ڈیفنس ایڈوائزر جیک کراولی نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں ہوئے اس حوصلہ افزاء حملے کے مد نظر امریکہ پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لینے کی ہنگامی اسکیم پر غور کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں اور سامان کو قبضے میں لینے کی خفیہ اسکیم بنائی ہے۔ یہ تشویش کی بات ہے پاکستان اندرونی تال میل کھوتا جارہا ہے اور پھر یہ بھی کہنے سے نہیں تھکتا کہ ہم اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو اور بڑھائیں گے۔
Tags: Anil Narendra, Karachi, Mehran Aira Base, Pakistan, Atom Bomb, Masroor Air Base, Pakistan, Al Qaida, Lashkar e Toeba, Vir Arjun, Daily Pratap,  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟