نکسلیوں کے پاس جدید ہتھیاروں سے تشدد بڑھنے کا اندیشہ

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily

26مئی 2011 کو شائع
انل نریندر
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 26/11 ممبئی حملے کے بعد سے بھارت کے اوپر کوئی بڑا آتنکی حملہ نہیں ہوا لیکن وہیں بڑھتانکسلی تشدد تشویش کا موضوع ضرور ہے۔ ابھی دو دن پہلے چھتیس گڑھ کے گاریابند پولیس ضلع کے اڑیسہ جوڑی سرحدی علاقے میں گشت پر گئے ایک پولیس سپرنٹنڈنٹ سمیت12 پولیس والوں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ خبروں کے مطابق سبھی نکسلیوں کے حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا نکسلی مسئلہ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دیش کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ اس نکسلی تحریک سے متاثر ہے۔ نکسلی کھلے عام کہتے ہیں کہ ہماری لڑائی تو نظم بدلنے کے لئے ہے، اقتدار بدلنے کے لئے نہیں۔ ہزاروں لوگ نکسلی اور ماؤوادی تشدد کا شکار ہوچکے ہیں۔ سرکار کی ٹال مٹول کی پالیسی کے سبب ان کا اثر بڑھتا جارہا ہے۔تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے جدید ہتھیاروغیرہ خرید رہے ہیں۔ اب تو نکسلی بھی ہتھیار استعمال کرنے لگے ہیں جو بھارتیہ فوج یا نیم فوجی فورس استعمال کرتے ہیں۔
بستر کے گھر نکسلی متاثرہ علاقوں میں نکسلیوں کے پاس موجود تکنیک سے ہماری خفیہ ایجنسیوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ نکسلی اب صرف بارودی سرنگ دھماکہ و اے کے 47- تک محدود نہیں رہ گئے ہیں۔ ذرائع کے دعوؤں پر یقین کریں تو خفیہ رپورٹ میں نکسلیوں کے پاس انتہائی جدید راکٹ لانچر ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔ وہیں خبر تو یہ بھی ہے کہ اب ان کے پاس دستی بموں کا ذخیرہ ہے اور زہریلی گیس چھوڑنے والے وسائل دستیاب ہیں۔ نکسلیوں کو چینی ہتھیار مل رہے ہیں۔ ان میں دستی بم، راکٹ لانچر وغیرہ شامل ہیں۔ سکیورٹی فورس کو حال میں قابل ذکر کامیابی ملی ہے اور اس سے نکسلی بوکھلا اٹھے ہیں۔ گذشتہ مہینوں میں گنجان جنگلوں میں مڈ بھیڑ اور تلاشی کارروائی کے دوران بھی نکسلیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس سے پہلے بغیر روک ٹوک کی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہے تھے ۔ نکسلیوں کی اس بوکھلاہٹ کو پولیس کی کامیابی مانا جارہا ہے۔
2010 ء نکسلی تشدد کا سب سے خونی برس رہا ہے۔ پچھلے ایک سال میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ نکسلی تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔44 برس پہلے 1967 میں شروع ہوئی نکسلی تحریک کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا خونی سال تھا۔2010ء میں نکسلی متاثرہ 9 ریاستوں میں انہوں نے998 لوگوں کی جان لی ہے۔ ان میں پولیس ملازمین اور700 سے زیادہ عام شہری تھے۔ جموں کشمیر اور مشرقی ریاستوں میں دہشت گردانہ وارداتوں میں مارے گئے لوگوں سے یہ تعداد پانچ گنا زیادہ ہے۔ نکسلی تشدد کا شکار زیادہ تر وہ غریب قبائلی اور دیہاتی ہوئے جنہوں نے ان کی مخالفت کی یا پولیس کے مخبر بنے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم نے گذشتہ دسمبر میں اپنی رپورٹ میں ایک بار پھر نکسلی تشدد کو دیش کی سلامتی کے لئے زیادہ سنگین خطرہ بتا یا ہے۔ چدمبرم نے سکیورٹی فورس سے کہا کہ انہیں دفاعی ہونے کے بجائے جاریحانہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مشکل یہ ہے کہ چدمبرم صاحب اور وزیراعظم کبھی تو سختی کی بات کرتے ہیں تو کبھی بات چیت کی اپیل کرتے ہیں نتیجہ یہ ہے سکیورٹی فورس کا یہ نہیں پتہ لگتا کہ سرکار کی پالیسی آخر کیا ہے۔
 Tags: 26/11, Anil Narendra, Daily Pratap, Manmohan Singh, Naxalite, P. Chidambaram, Terrorist, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟