دہلی بم دھماکہ: چیلنج یا وارننگ

 
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily

28مئی 2011 کو شائع
انل نریندر

نئی دہلی کے انتہائی حساس ترین علاقے میں واقع ہائیکورٹ احاطے کے باہر ہوئے بم دھماکے نے کھلبلی مچا دی۔ کھلبلی اس لئے نہیں مچی کہ بم بہت طاقتور نہیں تھا اگر طاقتور ہوتا تو اس کے نتیجے میں زیادہ جان مال کا نقصان ہوتا۔ جہاں یہ واردات ہوئی ہے وہ نئی دہلی میں سب سے زیادہ حساس ترین علاقہ مانا جاتا ہے۔اس سے دو چار کلو میٹر دور راشٹرپتی بھون، نارتھ بلاک اور پارلیمنٹ کی متعلقہ عمارتیں بھی اسی علاقے میں واقع ہیں۔ یہ بم ایسے علاقے میں پھٹا ہے اس نے ان علاقوں کے لئے ایک چنوتی کھڑی کردی ہے۔اسی سے تھوڑی دور واقع نیشنل ڈیفنس کالج بھی ہے۔ یاد رہے شکاگو میں چل رہے مقدمے میں ڈیوڈ ہیڈلی نے اپنے بیان میں اس کالج کو نشانے پر بتایا تھا۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ انٹیلی جنس بیورو نے وارننگ دی تھی کہ اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد سے آتنکی بوکھلائے ہوئے ہیں اور وہ کبھی بھی بدلہ لے سکتے ہیں۔ چار دن پہلے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے انچارج کو ڈاک کے ذریعے ایک خط بھی ملا تھا جس میں لشکر طیبہ نام سے کسی نا معلوم تنظیم نے یہ خط بھیجا۔ وہ اسامہ بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کیلئے بھارت میں بم دھماکے کرے گا۔ خط میں25 مئی کی شام 5 بجے کا وقت دیا گیا تھا اور نئی دہلی اسٹیشن، چڑیا گھر، لال قلعہ اور ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس خط میں کانپور، لکھنؤ، احمد آباد، جے پور ، ناگپور، غازی آباد، ہریانہ اور مہاراشٹر میں بھی حملے کی بات لکھی ہے۔ یہ خط کسی کریم نامی شخص نے لکھا ہے جو اپنے آپ کو جموں و کشمیر میں لشکرطیبہ کا کمانڈر ہونے کا دعوی کررہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ایسے معاملوں میں میں پولیس کچھ زیادہ نہیں کرسکتی۔ کوسنے کو تو ہم دہلی پولیس کو کوس سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ دہلی جیسے شہر میں جہاں لاکھوں آدمیوں کا روز آنا جانا ہے ایسے کروڈ بم حادثے کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہاں کوئی پارلیمنٹ حملے یا ممبئی حملے جیسی واردات کو تو روکا جاسکتا ہے لیکن ایسے چھوٹے موٹے دھماکوں کو روک پانا انتہائی مشکل ہے۔ سوال اٹھتا ہے آخر اس دھماکے کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ آتنکی اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں یا پھر کسی بڑے حملے کی ریہرسل تھا؟ قریب سوا دو سال کی خاموشی کے بعد جس طرح ہائیکورٹ کے باہر کم طاقت کا یہ دھماکوسامان رکھا گیا تھا اس سے اتنا تو صاف ہے کہ ان کا مقصد کسی کو مارنے کا نہیں تھا۔ وہ پاکستان میں بیٹھے اپنے آقاؤں تک پیغام پہنچانا چاہتے تھے کہ ہم اب بھی اتنا ہی سرگرم ہیں۔ بیشک بم کم طاقت کا تھا لیکن اگر بھیڑ والی جگہ پر رکھا گیا ہوتا تو کافی نقصان ہوسکتا تھا۔ آج کل پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں اے راجہ اور شاہد بلوا ، کنی موجھی جیسی بڑی ہستیاں مقدموں میں سماعت کے لئے لائی جارہی ہیں،اس لئے ان کی سلامتی ایک بڑا سوال ہے۔ اس لئے زیادہ چوکسی کی ضرورت ہے۔ انتہا پسند تنظیمیں بوکھلائی ہوئی ہیں اور وہ کوئی بڑی واردات کرنے کے فراق میں ہیں۔ یہ تو شاید ریہرسل تھی اصل حملہ ابھی آگے ہوسکتا ہے۔
Tags: Delhi High Court, Bomb Blast, Red Fort, Airport, Anil Narendra, Vir Arjun, Daily Pratap,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟