اسمبلی انتخابات میں مسلم پارٹیوں کو شاندار کامیابی ملی

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily

26مئی 2011 کو شائع
انل نریندر
ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ بدقسمتی ہی رہی ہے کے سیاست کے میدان میں انہیں اپنے فرقے کی کبھی صحیح لیڈرشپ نہیں ملی۔ بڑی سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ ان کا استعمال کیا اورووٹ بینک کی طرح ان سے برتاؤ کیا۔ اب یہ بات ہمارے مسلمان بھائیوں کو سمجھ میں آرہی ہے وہ اپنے کو سیاسی طور پرمنظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ اچھی پیش رفت ہے۔ یوں تو آزادی کے بعد سے ہی ہندوستانی سیاست میں چھوٹی موٹی مسلم سیاسی پارٹیاں ہمیشہ میدان میں رہی ہیں لیکن اب انہیں شاندار کامیابی ملنے لگی ہے۔ حال ہی میں ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے نتائج بتاتے ہیں مسلمان قومی سیاسی پارٹیوں سے مایوس ہوگئے ہیں اور وہ علاقائی مسلم پارٹیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی دکھانے لگے ہیں۔ کیرل میں مسلم لیگ او رآ سام میں آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو ملی کامیابی اور تاملناڈو میں نئی بنی مسلم پارٹی ایم ایس این کو بھی دو سیٹیں ملنا اس کا اشارہ کرتا ہے کہ اس کا اثر اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑنا لازمی ہے۔ خاص کر اترپردیش میں مسلم سیاسی پارٹیوں میں مسلم ووٹ کیلئے زبردست زور آزمائش ہونے والی ہے۔یوں تو کیرل میں مسلم لیگ ہمیشہ سے ہی طاقتور رہی ہے لیکن اس مرتبہ اس نے کامیابی کے سبھی پرانے ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔ اس کے 24 میں سے20 امیدوار جیتے ہیں۔ وہیں آسام میں اے آئی یو ڈی ایم کی سیٹیں 10 سے بڑھ کر19 ہوگئی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان ریاستوں کے مسلمانوں نے متحد ہوکر ان علاقائی مسلم پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے۔ کیرل میں مسلم لیگ یوڈی ایف کا حصہ تھی تو اے آئی یو ڈی ایف نے آسام میں اکیلے چناؤ لڑوا کر اپنی طاقت دکھائی ہے۔ تاملناڈو میں ایم ایس این کے جے للتا محاذ کا اتحادی حصہ تھی لیکن چناؤ کے فوراً بعداس کا من جے للتا سے کھٹا ہوگیا کیونکہ انہوں نے اپنی حلف برداری تقریب میں نریندر مودی کو بلایا تھا۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی کامیابی میں مسلم ووٹوں کا اہم رول رہا ہے۔ روایتی طور پر مارکسوادی پارٹی کا ووٹ بینک رہے مسلمانوں نے اس مرتبہ ممتا کے تئیں اپنی ہمدردی و حمایت دکھائی۔ مسلم ووٹروں کے رخ کو ممتا کی طرف موڑنے میں مسلم تنظیم جمعیت العلمائے ہند کا اہم کردار رہا۔ آندھرا پردیش میں بھی ایک مسلم سیاسی پارٹی مجلس مشاورت کو حیدر آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اچھی کامیابی ملی ہے۔ اس کے لیڈر اویسی لوک سبھا کے ممبر ہیں۔
اترپردیش میں مسلم ووٹوں کا اہم کردار ہوگا۔ وہاں 6 سے7 مسلم پارٹیاں ریاست کے 18 فیصد مسلم ووٹروں کو راغب کرنے کیلئے میدان میں ہوں گی۔ یوپی میں سب سے طاقتور پیس پارٹی ہے۔ اس نے پچھلے ضمنی چناؤ میں اچھے خاصے ووٹ حاصل کرکے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے لیکن اس کی پوری کوشش صوبے میں نہیں چل پائی اور زیادہ تر گورکھپور اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک ہی محدود ہے۔ حال ہی میں جماعت اسلامی نے بھی پارٹی بنائی ہے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا۔اے آئی یو ڈی ایف نے بھی یوپی کے چناؤ میں امیدوار اتارنے کا اعلان کیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے دیش کے مسلم ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک بھی شیعہ نہیں ہے۔ اس لئے کئی شیعہ تنظیموں نے بھی یہ محسوس کیا ہے کہ انہیں بھی منظم ہوکر اپنی پارٹی بنانا چاہئے تاکہ شیعوں کو ٹھیک نمائندگی مل سکے۔ یہ پارٹیاں کتنی کامیاب ہوتی ہیں یہ تو چناؤ کے بعد پتہ چلے گا لیکن اتنا ضرور ہے کچھ سیکولر پارٹیوں کی نیند حرام ضرور ہوگئی ہے۔
 Tags: Anil Narendra, Assam, Kerala, Muslim, State Elections, Tamil Nadu, Uttar Pradesh, West Bengal

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟