ٹرمپ کے خلاف امریکہ میں بغاوت !
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی آناً فانًا میں کئی فیصلے لیے اور اعلان کر ڈالا اس سے فطری طور پر امریکہ میں اور دنیا بھر میں طرح طرح کے سوال کھڑ ے ہونے لگے ۔اور رد عمل بھی سامنے آنے لگا۔امریکہ میں ٹرمپ کے خلاف ایک طرح سے بغاوتی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے انتظامی احکامات کا دیش بھرمیں احتجاج ہو رہا ہے ۔سب سے زیادہ احتجاج ٹرمپ کے اس حکم کا ہورہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں پیدائشی شخص کو خود شہریت نہیں ملے گی ۔اگر ان کی ماں غیر قانونی طور سے دیش میں رہ رہی ہو اور والد شہری یا جائز مستقبل باشندہ نا ہوں ۔صدر ٹرمپ کے ذریعے اس فیصلے پر دستخط کرنے کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں امریکہ کے ہی بائیس سے زیادہ ڈیموکریٹس کھل کر ٹرمپ کی مخالفت میں اتر آئے ہیں ۔ان کی دلیل ہے کہ ٹرمپ کے خلاف آئینی اختیار ات کو چھیننے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ان میں سے چار معاملوں میں سماعت ہو رہی ہے ۔سب سے بڑی پریشانی ان خواتین کو ہورہی ہے جو امریکہ میں پناہ گزیں یا ناجائز تارکین وطن کی شکل میں رہ رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے کے مستقبل کا کیا ہوگا ؟ ان کا مزید کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ ہی بتائیں کہ ان کی کوکھ میں پل رہے معصوم بچے کا کیا کروں ؟ بھارتیہ امریکی ممبران پارلیمنٹ نے امریکہ میں پیدا ہوئے کسی بھی شخص کے لئے خود شہریت کے قواعد میں تبدیلی سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے انتظامی حکم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس قدم سے نا صرف دنیا بھر سے آئے ناجائز تارکین وطن متاثر ہوں گے بلکہ بھارت سے آئے طالب علم اور پروفیشنلز بھی متاثر ہوں گے جیسا کہ میں نے کہا کہ اب ڈیموکریٹک پارٹی کے اثر والے وہاں کے 22 ریاستوں نے اس فیصلے کو عدالت میں چنوتی دی ہے ۔ہندوستانی نژاد ایم پی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے ۔اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت کام کرنے والی کئی انجمنوں نے بھی اسے عدالت میں چیلنج کیا ہے ۔ظاہر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے اس فیصلے پر آگے قدم بڑھانا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔پیدائش کے ساتھ شہریت کا قانون امریکی آئین میں تشریح ہے ۔اس لئے اسے بدلنے پر مخالفت ہونے کا اندیشہ پہلے سے ہی جتایا جانے لگا تھا ۔حالانکہ امریکی صدر کو کسی قانون کو نافذ کرنے یا بدلنے کو لے کرلا محدود اختیارات حاصل ہیں لیکن وہاں کے قانون نظام ایسا ہے کہ صدر بھی اس سے بالاتر نہیں ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں