اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ؟

یہ جانتے ہوئے بھی حکومت درکار نمبر طاقت میں مضبوط ہے پھر بھی اپوزیشن سرکار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لوک سبھا میں پیش کر دی ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر سمیت سبھی جانتے ہیں کہ یہ ریزولیوشن گر جائے گا۔ کیوں کہ اس کی مخالفت میں کہیں زیادہ ووٹ پڑیں گے اور حمایت میں کم لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب جانتے ہوئے بھی اپوزیشن سرکار کے خلاف عدم اعتماد کا ریزولوشن کیوں لا رہی ہے کیا اسے اس میں کچھ حاصل ہوگا سیاسی واقف کار مانتے ہیں کہ اپوزیشن کو اس عدم اعتماد رویزلوشن پر ہونے والی مفصل بحث کے ذریعے سرکار کو سبھی اشو پر گھیر نے کا مو قع ملے گا۔ لوک سبھا کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر دیویندر سنگھ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جن بھی مسئلوں کو اٹھاتی ہے تو سرکار اس پر بحث کیلئے تیار ہونے کی بات تو کرتی ہے لیکن اس میں کنتو پرنتو ہوتے ہیں جیسے منی پور پر ہی بحث کی بات کرلیں ۔اس پر قلیل میعاد بحث کیلئے سرکار تیار ہے ،جو محض ڈھائی گھنٹے کی ہوتی ہے ۔ جبکہ اپوزیشن وزیر اعظم کے بیان سمیت وسیع بحث چاہتی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد تحریک لاکر نہ صر ف منی پور بلکہ ان تمام مسئلوں پر سرکار کو گھیر نے تیاری کر لی ہے ۔ جنہیں وہ سرکار کے خلاف اٹھانا چاہتی ہے ۔ تجویز پیش ہونے اور قبول ہونے کے بعد اگلے ہفتے اس مسئلے پر بحث ہونا طے ہے ۔ ان کے مطابق پہلی نظر میں اس معاملے میں اپوزیشن سیاسی طاقت حاصل کر نے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ۔پورے دیش کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے ۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب بحث ہوگی تو حکومت کس طرح سے اپوزیشن پر جاریحانہ انداز اپناتی ہے ۔ کئی ریاستوںمیں اپوزیشن کی پارٹیوں کی حکومتیں ہیں ۔ ایسے میں خاتون سیکورٹی سے لیکر مہنگائی تک کے اشوز پر اپوزیشن کو حکمراں فریق کی طرف سے جوابی حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ایک طرف یہ اہم ہے کہ جب وزیر اعظم بحث کا جواب دیںگے تو اب تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہیں اپوزیشن پر بھاری پڑ جاتے ہیں ۔ اس لئے حکمراں اپوزیشن کے درمیان ہونے والی بحث اہم ہوگی۔ دیکھنا ہوگا کہ جنتا کو واضح پیغام اپوزیشن کی طرف سے جاتا ہے یا پھر حکمراں فریق کی جانب سے ۔ ایک دلیل اپوزیشن کی طرف سے یہ دی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم کو منی پور پر بیان دینے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔ وہ اسے کامیابی بھی مانیںگے ۔ لیکن یہ صاف ہے کہ منی پور پر ہونے والی بحث پر جواب دینے کی ذمہ داری وزیر داخلہ کی ہوتی ہے ۔ اپوزیشن منی پور پر پہلے وزیر اعظم کا بیان اور پھر بحث کی مانگ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ لیکن عدم اعتماد پر بحث کے بعد وزیر اعظم اکیلے منی پور نہیں بلکہ سبھی مسئلوں پر جواب دیںگے ۔ اس لئے اگر اس تجویز کے بعد پارلیمنٹ میں تعطل ختم ہوتا ہے تو اس سے حکمراں فریق بھی راحت کی سانس لیگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!