بھار ت میں اب وزیر اعظم نہیں راجہ ہے !

کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے سنیچر کے روز وزیر اعظم نریندر مودی پر کووڈ وباءکے دوران مظاہرین کسانوں کو ایک سال کیلئے سڑ کوں پر چھوڑنے کا الزا م لگایا اور کہا کہ بھار ت میں اب ایک راجہ ہے جسے لگتا ہے کہ اس کے فیصلے کیلئے جاتے وقت لوگوں کو چپ رہنا چاہئے ۔کچھا کی ایک ریلی میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس ایک ایسی سرکار دینا چاہتی ہے جو کسانوں ،نوجوانوں اور غریبوں کے ساتھ ساجھےداری میں کام کرے ۔انہوں نے یہ کہا کہ اتراکھنڈی کسان سوابھیمان ریلی کو خطاب کرتے ہوئے اگر کوئی وزیراعظم سبھی کیلئے کام نہیں کر تاہے تو یہ وزیر اعظم نہیں ہو سکتا ۔ اس حساب نریندر مودی وزیر اعظم نہیں ہیں۔ منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکا ر کی مثا ل دیتے ہوئے کہا کہ اس نے کسانوں کی قرض معافی کیلئے ان سے بات کی اور یہ دس دن کے اندر معاف کیا گیا۔یعنی ان سب کے 70ہزار کروڑ روپے کی قرض کی معافی ہوئی ۔ راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مفت تحفہ نہیں تھا ۔ ہماری سرکار نے ایسا اس لئے کیا کہ آ پ دیش کیلئے 24گھنٹے کام کرتے ہیں ۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ کانگریس کبھی کسانوں کیلئے اپنے دروازے بند نہیں کئے ۔ہم کسانوں،غریبوں اور مزدوروں کے ساتھ ساجھداری میں کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہر طبقے کو لگے کہ یہ ان کی سرکار ہے انہوں نے کہا کہ مودی نے ایک سال کیلئے کووڈ اور ٹھنڈ کے درمیان کسانوں کو سڑکوں پر چھوڑ دیا تھا اور ان کی شکایتوں کو سننے کیلئے بلا یا تک نہیں ۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ بھارت میں آج وزیر اعظم نہیں ہے اس کا ایک راجہ ہے ۔ جو جانتا ہے کہ جب راجہ کوئی فیصلہ لیتا ہے تو اس پر سبھی کو چپ رہنا چاہئے ۔ سماج میں پیسے کی کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے کانگریس نیتا نے دو بھار ت ہونے کی بات کہی ۔ اس طرح کی اب غیر یکسانی ،مرسڈیز کاروں کا بھارت ہے اور دوسرا غریبوں و بے روزگاروں کا بھارت ہے ۔جہاں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور تقریباً 100لوگوں کے ایک چنندہ گروپ کے پاس بھارت کی 40فیصد آبادی کے برابر اثاثہ ہے ایسی آمدنی غیر یکسانیت ہی کہی جائے گی اور یہ نہ ہی دیکھی جاسکتی ہے ۔ راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ہم وہ بھارت نہیں بلکہ ایک بھار ت چاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ناانصافی ختم ہو ، انہوں نے زرعی قوانین کی مخالفت کرنے کے مسئلے پر احتجاج کرنے پر کسانوں کو مبارکباد دی جنہوں نے آخر کار بھاجپا کی این دی اے سرکا رنے ان قوانین کو منسوخ کر دیا تھا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟