میری آواز ہی پہچان ہے!

سروں کی ملکہ لتا منگیشکر نے یوں تو تقریباً آٹھ دہائیوں میں نغموں کو اپنی آواز سے سجایا ،حالاںکہ کچھ ایسے نغمے رہے جن سے ان کی بہت گہر ی وابسطگی بن گئی اور آواز کی کوئل نے کئی ان نغموں کا ذکر بھی کیا ۔ سورگیہ لتا جی نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ وہ اب بھی اس بات کو یا دکرتیں ہیں کہ کس طرح سر کردہ نغمہ نگار گلزار کے لفظ میری آواز کی پہچان ہے ۔ موسیقی کی دنیا میں ا ن کے سفر کو دکھاتے ہیں اور ان کے سامعین ان کی آواز سے ہی ان کی پہچان کو جوڑتے ہیں ۔ یہ الفاظ سال 1977میں آئی فلم کنا رہ کا نغمہ ”نام گم جائےگا“کے ہیں لتا جی نے کہا تھا کہ دیش میں ہر شخص جانتا ہے کہ گلزار صاحب خوبصور ت نغمے لکھتے ہیں تو بہت خوبصورت بولتے بھی ہیں ۔ جب میں یہ گیت گارہی تھی ،وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میری آواز ہی پہچان ہے اور یہ ہیں پہچانیں اور اس کے بعد میں بھی یہ کہنا شروع کیا کہ میری آواز ہی میری پہچا ن ہے ۔ اب جو بھی اس گیت کو گاتا ہے یا میرے بارے میں لکھتا ہے تو وہ ان سطور کو ضرور دوہرا تا ہے ۔ کچھ ٹیلنٹ بنتے ہیں اور کچھ پیدا ہو جاتے ہیں ۔ وہ جیسے موسیقی کے لئے ہی پیدا ہوئی تھیں اور جیتے جی دنیا بھر کی آواز بن گئیں ۔ گلوکارہ لتا منگیشکر نے شہرت اور مقبولیت اور عزت موسیقی کی دنیا میں کمائی تھی ویسی شاید دنیا میں کسی نے بھی نہیں حاصل کی ۔ سورگیہ گلوکارہ دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کیلئے تلقین کی علامت تھیں اور ان کی شخصیت سے دیوی سرسوتی کا عکس ابھرتا تھا ۔ سادھنا تو سب کرتے ہیں لیکن وہ انہیں میں پلی بڑھیں جن کی مورتی کی دین ہو۔ہندوستانی موسیقی دنیا میں مقبولیت کی آواز کی پہیہ سرسوتی لتا منگیشکر جیسی کوئی شخصیت نہیں ہوئی ۔انکا دنیا سے جانا یقینی طور پر موسیقی کیلئے بہت بڑا نقصان ہے ۔انہوں نے دیش بھکتی کے گیت گائے اور ایک گیت اتنا مقبول ہوا کہ وہ دیش کی یوم آزادی سے منسوب ہو گیا۔ ان میں ایک دیش بھکتی گیت ’اے میرے وطن کے لوگوں ‘ذراآنکھ میں بھر لو پانی ،جو شہید ہوئے ہیں ان کی ذرا یا د کرو قربانی ‘انہوں نے یہ گیت بہت جذباتی انداز میں گایا اور یہ ان کی آواز میں امر ہو گیا ہے بہر حال ان کی سوریلی اور مخملی آواز میں جو کوشش اور فن کا مظاہر ہ کیا وہ سننے والوں کے دلوں کو گہرائی سے ان کی آواز چھوتی تھی ۔80سال تک موسیقی کے آسمان تارے کی طرح چمکتی رہیں ان کی یہ گلوکاری کے تئیں پوری خدمت کی مہا نائک کہا جائے تو اس میں کوئی قباہت نہیں ہوگی ۔ بہر حال اتور کی صبح 8.10بجے ممبئی کے برچ کینیڈی ہسپتال میں دنیا کیلئے لتا جی کی آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی ۔فلمی دنیا میں مشہور گلوکارہ کی شکل میں آٹھ دہائی تک الگ الگ زبانوں میں اور الگ الگ ٹیسٹ میں گایا آپ نے شاستریہ سوبھم سنگیت ،غزل ،بھجن وغیرہ کے گانے شاستریہ گلوکارہ کی عظیم شخصیت بنیں ۔ بڑے استاد غلام علی نے کہا تھا کہ یہ لڑکی کبھی بھی بے سرا نہیں ہوتی ۔ اندور پیدا ہوئی لتا جی کے والد دینا ناتھ منگیشکر مراٹھی اور شاستریہ سنگیت کے ایک مقبول گلوکار اور موسیقی کار تھے ۔پانچ سال کی عمر میں ہی لتا منگیشکر نے اپنے والد کی رہنمائی میں سنگیت کے سر سیکھنے شروع کر دئے تھے ان کے نام کئی ریکارڈ درج ہیں ۔اور سب سے زیادہ زبانوں زیا دہ گیت گانے کا اعزاز ان کے نام پر ہی ہے ۔ ان کے گانے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے سرسوتی کی آرتی نہ بن گئی ہو ۔میگا اسٹار امیتابھ بچن نے سورگیہ گلوکارہ لتا منگیشکر کو شردھانجلی دی ہے ۔ امیتا بھ بچن نے اپنے ذاتی بلا گ پر لتا منگیشکر کو لاکھوں صدیوکی آواز کی شکل میں تشبیح دی ہے کہ ہمیں آج ایک لاکھ صدیوں کی آواز چھوڑ گئی ہے۔ شانتی ! اور ان کی آتما کی شانتی کیلئے پرارتھنا ۔ لتا جی کے جانے کے نقصا ن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!