باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی !

کورونا کی دوسری لہر کے بعد نا ختم ہونے والی لہر نے درمیانہ طبقہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ہر دن بڑھتی مہنگائی نے کھانے پینے کی چیز سے لیکر تقریباً ہر چیز کے دام بڑھا دئیے ہیں رسوئی کے سامان و ایل پی جی سلینڈ ر میں عام آدمی کی جیب زیادہ ڈھیلی کردی ہے ۔ایل پی جی سلینڈر 2021 میں ہی 140 روپے مہنگا ہو چکا ہے ۔اور اس سال مئی میں 11 سالوں میں غذائی تیل کی قیمت سب سے اونچائی پر پہونچ گئی ہے جس کی ضرورت ہر گھر میں ہوتی ہے ۔اتنا ہی نہیں ہر گھر میں استعمال ہونے والا دودھ بھی مہنگا ہو گیا ہے ۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر گرہستی کیسے چلے گی ؟ کورونا کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کی آمدنی پر اثر پڑا ہے ۔لاک ڈاو¿ں کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگارہو چکے ہیں جبکہ خرچ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے یہاںتک کہ اور پیٹرول ڈیزل کے دام بھی آسمان چھو رہے ہیں ۔2021 شروعاتی چھ مہینوں میں ایل پی جی گیس سلینڈر کی قیمت 140.50 روپے بڑھ چکے ہیں ۔2021 کی شروعات میں دہلی میں ایل پی جی سلینڈر کی قیمت 694 روپے تھی ابھی بڑھ کر 834.50 روپے ہو چکی ہے ۔غذائی تیل بازار میں قیمتیں پچھلے ایک سال میں کافی بڑھی ہیں اور سرسوں کے تیل کی قیمت 44 فیصد بڑھ گئی ہے ۔اور یہ 118 روپے لیٹر سے بڑھ کر 171 روپے ہو گئی ہے ۔بہر حال پچھلے گیارہ برسوں میں مہنگائی اونچائی پر پہونچی ہے ایسے ہی امول دودھ مہنگا ہوگیا ۔دودھ ایسی چیز ہے جس کا استعمال ہر گھر میں ہوتا ہے یعنی پہلے سے ہی لوگ مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں ۔اب دودھ بھی مہنگا خریدنا پڑے گا اس اضافہ کے بعد امول گولڈ ہاف لیٹر 29 روپے ہو گیا ہے ۔تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سرکار کو اس کمر توڑ مہنگائی کو روکنے کے لئے کوئی دلچشپی نہیں ہے غریب آدمی تو مرے تو مرے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!