فیملی پلانگ کےلئے زبردستی نہیں کرسکتے !
سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ لوگوں کو فیملی پلانگ کے تحت خاندان مین بچوں کی تعداد دو تک محدود رکھنے کے لئے مجبور کرنے کے خلاف ہے اس سے آبادی کے سلسلے میں عجب حالات پیدا ہونگے مرکزی سرکار نے عدالت سے کہا کہ وہ فیملی پلانگ کے لئے کسی پر دباو¿ نہیں ڈال سکتی ایسا کرنے سے منفی اثر بھی ہوتا ہے اور ڈیمو گرافی کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں سپریم کورٹ نے اس عرضی پر مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کر جواب داخل کرنے کو کہا تھا عرضی میں عرضی گزار نے آبادی کنٹرول کے لئے وینکٹ چلیہ کمیشن کی سفارشات نافذ کرنے کے لئے درخواست دی تھی اس میں کہا گیا ہے کہ دو بچوں کی پالیسی لوگو کی جائے سرکار ی سب سڈی اور نوکری کے لئے دو بچے کی پالیسی کو نافذ کرنے کا حکم دیا جائے مرکزی وزارات صحت کی جانب سے داخل جواب میں کہا گیا ہے فیملی پلاننگ ایک مرضی والا پروگرام ہے یہ لوگوں کی خواہش کے حساب سے فیملی پلاننگ اسکیم ہے اس میں کوئی زور زبردستی نہیں اس معاملے میں مرکزی سرکار نے کہا کہ پبلک ہیلتھ اسٹیٹ کا اشو ہے اس معاملے میں ان کا کوئی سیدھا رول نہیں ہیلتھ سے متعلق گائیڈ لائنس لاگو کرنے کا حق اسٹیٹ کا ہے ۔ سرکار ایک پائیدار ،آبادی پالیسی کی تعمیل کرتی ہے اور وہ فیملی پلاننگ کے زبردستی کرنے خلاف ہے ۔ ویسے بھار ت آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے تمام پروگرام چلاتا ہے مثلاًیوم آبادی منایا جاتا ہے مشن فیملی ڈیولیپمنٹ یوجنا ہے اس کے تحت فیملی پلاننگ پروگرام چلاتا ہے ایسے بہت سے پروگرام ہیں سپریم کورٹ نے بھاجپا نیتا اشونی اپادھیا کی جانب سے داخل عرضی میں بھارت سرکار کو شریک مدعی بنایا ہے اور کہا گیا ہے کہ دیش میںآبادی کنٹرول کرنے کے لئے قدم اٹھائے جائیں اوردو بچے کی پالیسی علان کی جائے یعنی سرکاری نوکری سب سڈی وغیرہ کرائیٹیریا طے کیا جایا اور اس پالیسی کی خلاف ورزی کرنے قانونی حق ووٹنگ کا حق اور چناو¿ لڑنے کے حق سے محروم کیا جائے ۔وزارات نے کہا کہ آبادی کنٹرول ریاست کا اشو ہے جب کی ہمارا کہنا ہے وزارت کے افسران نہ آئین کو پڑھتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں آئین کے سیڈول سات میں کاموں کا بٹوارہ ہے اس میں تین لسٹ ہیں مرکزی ،ریاستی ،اور سرحدی فہرست شامل ہیں آبادی کنٹرول کا اشو اخری فہرست میں ہے یعنی آبادی کنٹرول پر مرکز اور ریاستی حکومتیں دونوں ہی قانون بنا سکتی ہیں ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں