کہرے و ٹھنڈ میں کانپتے کسان ارادے اب بھی مضبوط!

پچھلے دو تین دن سے دہلی کی سڑکوں پر زبردست کہرہ ہے ،سردی بڑھ گئی ہے سخت ٹھنڈ کے درمیان لوگوں کا چند منٹ بھی سڑک پر رہ پان مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ کہرے کی وجہ سے سڑکوں پر روشنی اتنی کم ہوگئی چند قدم دور تک دیکھ پانا بھی مشکل ہے دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن پیدل چلنے پر محض دس قدموں پر ہی سڑکوں کے کنارے ٹرالی کے نیچے تو کوئی ٹرالی کے اندر سوتا دکھائی دے رہا ہے یہ نظارہ ہے سندھو بارڈر کا دھرنے کی جگہ پر دن بھر چہل پہل کے بعد روزآنہ رات کو لوگ اپنے اپنے بسیروں پر پہونچ جاتے ہیں جہاں انہوں نے اپنے ٹھہرنے کا ٹھاکانہ بنایا ہوا ہے۔ کچھ کسان گاو¿ں سے لائے ٹرالیوں میں سو رہے ہیں کوئی جن بسوں میں آئے ان میں سونے پر مجبور لیکن بہت سے ایسے کسان ہیں جنہیں اب بھی دھرنے کی جگہ پر سونے کی جگہ نصیب نہیں ہوتی ان کسانوں کےلئے سر د ہوائیں کسی مصیبت سے کم نہیں اس کے باوجود مظاہر ہ کر رہے کسانوں میں جذبے کی کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی دھرنا کی جگہ کے قریب سو میٹر آگے کنڈلی کی طرف خالصہ ایڈ کی طرف سے عارضی رین بسیرہ دکھائی دیتا ہے ۔یہاں پر قریب چار سو لوگوں کے رہنے کا انتظام کیا گیا ہے وہاں جاکر ہم نے دیکھا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ رضائی گدے لئے سوئے ہوئے تھے وہاں موجود انچارج سے بات کرنے پر پتہ چلا یہ وہ لوگ ہیں جو دھرنہ دینے کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ کئی کلو میٹر تک یہ کسان پھیلے ہوئے ہیں اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں رات کو بے فکر ہوکر کسان اپنی راتیں گزارتیں ہیں ان کے پیچھے نوجوان اور دوسرے فورس کا سخت پہرہ ہوتا ہے۔ یہ لڑکے رضا کار کے طور پر چو بیس گھنٹے کام کرتے ہیں کپ کپاتی ٹھنڈ میں روز آنہ اپنی ڈیوٹی پر مستعد دکھائی پڑتے ہیں اور لڑکوں کی باری باری ڈیوٹی بدلتی ہے در اصل سندھو بارڈر ایک بڑا اسٹیج بنا ہوا ہے جو دس فٹ اونچااور تیس چالیس فٹ چوڑاہے اس کے سامنے بڑی تعدا دمیں کسان بیٹھ کر دھرنا نعرے بازی کرتے ہیں اس کے آس پاس اسٹال ٹینٹ کھانے پینے کے لنگر دستیاب ہیں ۔ ایک رضا کار جسپیر سنگھ نے بتایا کہ وہ یہاں سیوا دار کی میں خدمت کرتے ہیں ہزاروں کسانوں کے درمیان کوئی پولس والا نہیں ہوتا وہ چبڑی پریمی کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کا نام کلوندر سنگھ ہیں وہ کبڈی ٹیم کے ساتھ اپنی خدمات دے رہے ہیں ہم کسانوں سکے جذبے کو سلا م کرتے ہیں تمام نا گزیر حالات میں اپنے محذ پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔واہے گورو جی دا خالصہ واہے گوروجی دی (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!